ہوزے موہیکا کی عمر اس وقت اٹھاسی برس ہے۔ وہ یوروگوئے کے دارالحکومت مونٹی وڈیو کے مضافات میں اپنی اہلیہ لوسیا توپولانسکی کے گھر میں رہتے ہیں۔ ان کی شادی دو ہزار پانچ میں ہوئی تھی۔ دونوں کا تعلق ملک کی حکمران اشرافیہ سے ہے، مگر یوروگوئے کی " اشرافیہ " کا مطلب وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
ہوزے موہیکا دو ہزار دس تا پندرہ بائیں بازو کے اتحاد کی حکومت کے سربراہ رہے۔ آئین کے مطابق ایک شخص لگاتار دوسری بار صدر نہیں بن سکتا۔ ان کے بعد آنے والی حکومت میں ان کی اہلیہ دو ہزار سترہ سے بیس تک ملک کی نائب صدر رہیں۔ اب دونوں کی عمر ہوگئی ہے اس لیے عملی سیاست سے دور رہتے ہیں۔ ان کے ہمیشہ سے وہی معمولاتِ و طرزِ زندگی ہے جو کسی بھی یوروگوئین مڈل کلاسیے کا ہوتا ہے۔
انیس سو ستر اور اسی کے عشرے میں یوروگوئے بیشتر لاطینی ریاستوں کی طرح مسلسل امریکا نواز دائیں بازو کی فوجی آمریت کے چنگل میں رہا۔ ہوزے موہیکا کا شمار بائیں بازو کے کلیدی مزاحتمی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ چنانچہ انھیں چھ بار لڑتے ہوئے گولی لگی اور چودہ برس عقوبت خانوں میں گذارے۔
انیس سو پچاسی میں جمہوریت کی بحالی کے بعد موہیکا نے مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے جماعتی سیاست کا راستہ چنا۔ انیس سو چورانوے کے عام انتخابات میں وہ رکنِ قومی اسمبلی اور انیس سو ننانوے میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ دو ہزار پانچ تا آٹھ وہ بائیں بازو کے براڈ فرنٹ کی مخلوط حکومت میں وزیرِ زراعت و لائیو اسٹاک رہے۔ دو ہزار نو میں صدارتی انتخاب میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے جیتے۔
براڈ فرنٹ کی حکومت اور موہیکا کے دورِ صدارت کو شامل کر لیا جائے تو سولہ برس کے دوران سماجی و ترقیاتی منصوبوں پر قومی بجٹ کا پچھتر فیصد صرف ہوا۔
غربت کی شرح اٹھارہ فیصد سے کم ہو کر نو فیصد رہ گئی۔ افراطِ زر اور بے روزگاری کی شرح سات فیصد پر برقرار رہی۔ کم ازکم تنخواہ چار ہزار آٹھ سو ڈالر سے بڑھ کے دس ہزار ڈالر سالانہ ہوگئی۔ انٹرنیشنل ٹریڈ یونین آرگنائزیشن کے مطابق براعظم جنوبی امریکا میں مزدور حقوق کے تحفظ میں بولیویا سب سے آگے ہے۔
اس عرصے میں سب شہریوں کے معیارِ زندگی میں کچھ نہ کچھ فرق آیا سوائے ہوزے موہیکا کے رہن سہن کے، جب وہ پانچ برس صدرِ مملکت رہے تب بھی اپنے دہقانی گھر میں تھے۔ آج بھی ان کے کپڑے تار پر لٹکے سوکھ رہے ہوتے ہیں۔
تب بھی انھیں حفاظت کے لیے پولیس کے دو سپاہی ملے ہوئے تھے۔ آج بھی بطور سابق صدر وہی دو سپاہی ان کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک پالتو کتا مینوایلا تو خیر ہے ہی جو اب بوڑھا ہوکے کونے میں پڑا رہتا تھا۔
موہیکا کے پاس ایک ساٹھ برس پرانی بائسیکل تھی۔ اب بھی وہ کبھی کبھار اسے رواں رکھنے کے لیے سواری کر لیتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی چھوٹے سے کھیت میں سبزیاں اور پھول اگاتے ہیں۔
بطور صدر ہوزے موہیکا کی تنخواہ بارہ ہزار ڈالر سالانہ تھی (یہ تنخواہ کم ازکم سرکاری تنخواہ کی حد سے محض دو ہزار ڈالر زائد تھی)۔ اس تنخواہ کا نوے فیصد فلاحی اداروں کو چلا جاتا تھا۔ کیونکہ موہیکا خاندان کی ذاتی ضروریات ہمیشہ ہی نہ ہونے کے برابر رہیں۔
سابق صدر کے ذاتی اثاثوں میں انیس سو ستاسی ماڈل کی والکس ویگن بھی ہے جس کی مالیت اٹھارہ سو ڈالر ہے۔ کسی مداح نے اسے تین برس قبل ایک لاکھ ڈالر میں خریدنے کی پیش کش کی۔
سابق صدر تب سے غور کر رہے ہیں کہ اتنی بڑی رقم کا وہ کیا کریں گے؟ کسی خیراتی یا فلاحی ادارے کو دیں گے یا اس میں سے کچھ رقم ذاتی صرفے کے لیے رکھیں گے۔ مگر پھر مزید خریدیں گے کیا اور کس لیے؟ موہیکا کا یہ غور گزشتہ تین برس سے جاری ہے۔ البتہ صدر کی اہلیہ امیر خاتون ہیں۔ گھر، کھیت اور ٹریکٹر ملا کے ان کے ذاتی اثاثوں کی مالیت سوا دو لاکھ ڈالر ہے۔
سابق صدر کے بقول " نہ جانے لوگ مجھے ایک غریب مسکین سا صدر کیوں سمجھتے رہے اور اب بھی ترس کھاتے ہیں۔ ارے بھئی غریب تو وہ ہوتا ہے جو پہلے تو مہنگا طرزِ زندگی اپناتا ہے اور پھر اسے برقرار رکھنے کے لیے زندگی بھر دوڑتا پھرتا ہے۔
آپ کے پاس جتنی اشیا ہوں گی اتنی ہی آپ کی آزادی گھٹتی جائے گی۔ زندگی آزادی کا نام ہے۔ بھلا ایسی زندگی کس کام کی جسے اشیا کے حصول کی مسلسل خواہش ہی مقید کر لے۔ آپ مجھے ان خیالات کی بنا پر خبطی بڈھا کہنا چاہتے ہیں تو شوق سے کہیے۔ "
صدر موہیگا نے دو ہزار تیرہ میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر کوئی ترقی کے لیے مغربی سرمایہ دارانہ ماڈل کا شیدائی ہے۔
حالانکہ اس نظام کی بنیاد ہی صارفین میں اضافے اور اشیا کی مصنوعی طلب اور مسلسل کھپت پر ہے۔ اگر کل بھارت میں ہر خاندان کے پاس اتنی ہی گاڑیاں ہوں جتنی ایک جرمن خاندان کے تصرف میں ہیں تو سوچئے فضا میں کتنی آکسیجن بچے گی۔
صدر موہیکا کے بقول کیا اس کرہِ ارض میں اتنی سکت ہے کہ اس کے آٹھ ارب باسی امیر ممالک کی نقالی میں ایک مصنوعی معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے وسائل کو بے تحاشا ضایع کریں؟
اگر ترقی کا مطلب وسائل کا ہوس ناک استعمال ہی ہے تو وہ دن دور نہیں جب کسی کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ ایک ہی صورت ہے بچنے کی کہ ترقی کے تصور کو وسائل کے استعمال کی نادان دوڑ سے الگ کر کے ہر ایک کی بنیادی ضرورتوں پر پوری توجہ مرکوز کر کے مصنوعی ضروریات کو معیاری زندگی کے تصور سے خارج کر دیا جائے۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں
لکھا تو یہ فیض احمد فیض نے تھا مگر اس پر اپنا سر شہباز شریف جیسے دھنتے ہیں اور اس تصور کو گفتگو برائے گفتگو کا موضوع عمران خان جیسے بناتے ہیں۔ البتہ عمل ہوزے موہیکا جیسے ہی کرتے ہیں جنھوں نے شاید ریاستِ مدینہ یا خلافتِ راشدہ کا نام تک نہ سنا ہوگا۔