پچھتر برس پہلے لاکھوں لوگ اپنی مٹی، گھر بار اور یادیں چھوڑ کے پاکستان آ رہے تھے۔ آج انھی لاکھوں لوگوں کی تیسری چوتھی نسل ہر حربہ استعمال کر کے اپنے گھر بار اور یادیں چھوڑ کے یا تو پاکستان سے جا رہی ہے یا پہلی فرصت میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہے۔
پہلی نسل نے بھی سیاسی، معاشی و سماجی وجوہات اور عدم رواداری کے سبب ہجرت کی تھی۔ ان کی چوتھی نسل بھی انھیں وجوہات کے سبب زمین چھوڑ رہی ہے۔
ایک محاورہ ہے کہ انسان تب ہی زمین چھوڑتا ہے جب گھر شارک کا جبڑا بن جائے۔ آج ہر ایک کے پاس باہر جانے کا کوئی نہ کوئی ٹھوس جواز ہے اور سب سے بڑا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ اب امید بھی نظر نہیں آ رہی۔
گجرات، منڈی بہاؤ الدین، گوجرانوالہ بیلٹ میں ایسے بہت سے گاؤں ہیں جہاں سوائے بچوں کے کوئی بالغ لڑکا نہیں۔ سب باہر ہیں۔ کوئی قانونی طور پر تو کوئی غیرقانونی طور پر نکل گیا ہے۔
اور جو ادھیڑ عمر مرد پائے جاتے ہیں وہ بھی کبھی نہ کبھی باہر جانے کی " ٹرائیاں" مار چکے ہیں۔ کچھ خود واپس آ گئے، کچھ ڈی پورٹ ہوئے اور کچھ مالی مشکلات کے سبب سفر ملتوی کر بیٹھے۔
ایف آئی اے ہر برس جو ریڈ بک تازہ کرتی ہے۔ اس میں یہ ممکن ہی نہیں کہ سو میں سے پچھتر ہیومین ٹریفکرز اور نام نہاد ٹریول کنسلٹنٹس کا تعلق شمالی یا وسطی پنجاب سے نہ ہو۔ جتنے پکڑے جاتے ہیں، اتنے ہی اور سامنے آ جاتے ہیں۔
ویسے بھی اسمگلنگ آف مائیگرنٹس ایکٹ مجریہ دو ہزار اٹھارہ کے تحت زیادہ سے زیادہ کیا سزا ملے گی؟ پانچ برس قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ۔ زیادہ تر ملزموں کے خلاف مقدمات ہیومین ٹریفکنگ کی دفعات کے تحت بنانے کے بجائے جعلی دستاویز کی تیاری اور تحویل کے بنتے ہیں اور اس جرم کی سزا نہ ہونے کے برابر ہے۔ پکڑے بھی جاتے ہیں تو پیچھے کوئی بھائی، بیٹا، بھتیجا تو ہوتا ہی ہے کاروبار رواں رکھنے کے لیے۔ لہٰذا پکڑ دھکڑ اور چھاپوں سے بس اتنا فرق پڑتا ہے جیسے برف کی سل درمیان سے توڑ دیں تو پانچ منٹ بعد وہ دوبارہ جڑ جاتی ہے۔
جب میں سری نگر کے شہدا قبرستان میں گھوم رہا تھا تو یہ بات نوٹ کی کہ ایک چوتھائی قبریں پاکستانی لڑکوں کی ہیں اور ان میں سے بھی پچاس فیصد کی قبر پر جو لوح نصب ہے۔
اس پر جنوبی پنجاب کے کسی شہر یا قصبے کا نام درج ہے۔ جب بھی دنیا میں کوئی دھماکا یا حملہ ہوتا ہے پہلا خیال یہ آتا ہے کہ اس میں کوئی پاکستانی ملوث نہ ہو۔
جب بھی سعودی عرب سے کسی کے سر قلم ہونے کی خبر آتی ہے۔ دل میں خدشے کا سانپ لہرا جاتا ہے کہ یہ کہیں کوئی ہمارا ہی بھائی بند نہ ہو۔ جب بھی لیبیا، تیونس اور اٹلی کے درمیان حائل بے رحم بحیرہ روم میں کسی کشتی کے ڈوبنے کی خبر آتی ہے تو دماغ میں لال بتی جلنے بجھنے لگتی ہے۔
مرنے والوں میں کوئی گجرات، منڈی بہاؤ الدین یا گوجرانوالہ کا بچہ نہ ہو، مگر ہر بار کوئی نہ کوئی پاکستانی نکل ہی آتا ہے۔ اب جیسے تین روز قبل ترکی سے روانہ ہونے والی تارکینِ وطن سے بھری جو پھٹیچر سی کشتی جنوبی اٹلی کے ساحل پر ڈوب گئی۔ اس میں سوار ساٹھ افراد کا تعلق ایران، عراق، افغانستان اور پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔
اطالوی، یونانی، ترک اور شمالی افریقی امیگریشن حکام کے ریکارڈ کی مجموعی تصویر یہ بنتی ہے کہ ایک برس میں جتنے بھی لوگ غیرقانونی طور پر بحیرہ روم پار کرنے کی کامیاب یا ناکام کوشش کرتے ہیں ان میں پاکستانی باشندے تعداد کے اعتبار سے کسی برس چوتھے تو کسی برس تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ یہ زمینی و بحری سفر موت کی بارودی سرنگوں سے اٹا پڑا ہے۔ پہلے انھیں ایران کے راستے ترکی یا پھر خلیجی ممالک کے راستے شمالی افریقہ یا وسطی ایشیا کے راستے رومانیہ، بلغاریہ، پولینڈ پہنچایا جاتا ہے۔ اکثر راہ کی صعوبتوں کا لقمہ بن جاتے ہیں یا سرحدی محافظوں سے مڈبھیڑ میں ہلاک و گرفتار ہو جاتے ہیں یا انھیں اسمگلر راستے میں چھوڑ کے بھاگ جاتے ہیں۔
جو کسی نہ کسی طرح لیبیا، تیونس یا ترکی پہنچ جاتے ہیں انھیں بے یقینی کی کشتی میں سوار کروا کے سمندر میں ہنکال دیا جایا ہے۔ سفر کامیاب ہو بھی گیا تو مشکوک یا جعلی دستاویزات فاش ہونے کے خوف سے چھپ چھپا کے قلیل دہاڑی پر غلامی یا بلیک میلنگ کی زندگی بسر کرتے ہیں یا پھر کسی جرائم پیشہ گینگ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں یا ان گروہوں کے لیے ہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر کوئی لڑکی یا عورت اس راستے سے یورپ پہنچا دی جائے تو زیادہ تر کے مقدر میں جنسی استحصال ہی لکھا ہوتا ہے۔
مسئلہ صرف ہیومین اسمگلنگ تک ہی رہتا تو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اب تو یہ بحران دوطرفہ تعلقات کو بھی کھا رہا ہے۔ مثلاً ترکی کی جیلوں میں کسی بھی وقت تین ہزار سے چھ ہزار پاکستانی آپ کو ضرور ملیں گے۔
یہ وہ پاکستانی ہیں جو یورپ میں غیرقانونی طور پر داخل ہوتے ہوئے دھر لیے گئے یا پھر ترکی میں غیرقانونی قیام کے جرم میں پکڑے گئے یا پھر یہاں عارضی اقامت نامے پر رہتے ہوئے کوئی نہ کوئی چھوٹی بڑی واردات کرتے ہوئے تنبو ہو گئے۔
ترکی وہ ملک ہے جہاں دو برس پہلے تک پاکستانی ہونا فخریہ تعارف تھا۔ مگر استنبول میں جنسی ہراسانی کے چند واقعات اور چار یمنی سیاحوں کو گزشتہ برس دن دہاڑے اسلحے کے زور پر اغوا کرنے کی واردات نے ساری عمومی خیرسگالی ملیامیٹ کر دی۔
اب ترکی کا ویزہ بھی بہت سی شرائط میں جکڑ دیا گیا ہے اور عارضی اقامت نامے کا حصول بھی پہلے سے کہیں مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ترکوں کی بے ساختہ محبتی نگاہوں میں بھی سوالیہ نشانات ابھر آئے ہیں۔
ترک حکام زیرِ لب یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود پاکستان میں ہیومین اسمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑنے اور اس نیٹ ورک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر کے کچھ لوگوں کی سرپرستی کے جال کو چھانٹنے کے سلسلے میں ٹھوس عملی اقدامات کے بجائے انھیں زبانی جمع خرچ پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔
جو لوگ مذہبی عدم تحفظ اور جان کے خوف سے یہ ملک چھوڑ رہے ہیں یا چھوڑنا چاہتے ہیں ان میں کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ کمیونٹی اور احمدی برادری نمایاں ہے۔ سب کی حتمی منزل یورپ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا ہی ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں یا چھوڑنا چاہ رہے ہیں۔ مگر وجہ سب کی سانجھی ہے " ہم اس لیے چھوڑنا چاہتے ہیں کیونکہ اس ریاست نے ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے"۔