Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jab Kuch Nahi To Anarchy Sahi

Jab Kuch Nahi To Anarchy Sahi

پچھلے ہفتے جو کچھ لاہور میں ہوا اور جو آگے ہونے والا ہے۔ حالات کا اونٹ بھلے کسی کروٹ بیٹھے مگر کسی کی ہار اور کسی کی جیت سے قطع نظر جیسا اب تک چلتا آ رہا ہے ویسا اب نہیں چلے گا۔ ورنہ پھر سب چلے گا یا کچھ بھی نہیں چلے گا۔

آج کل کے بدتمیز لمڈوں کو وعدوں اور خوابوں پر نہیں بہلایا ٹہلایا جا سکتا۔ بچے بڑے ہوگئے ہیں انھیں" چڑیا اڑی کوا اڑا تیتر اڑا ہاتھی اڑا " کا بچگانہ راگ نہیں تھمایا جا سکتا۔ سب کو کچھ نہ کچھ اب دینا ہی پڑے گا ورنہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔

سب کو کچھ نہ کچھ دینا تب ہی ممکن ہے جب ان چند طبقات اور اداروں اور افراد کی بلیک ہول سے بھی گہری جیبیں کسی بھی طرح سے الٹوائی جائیں کہ جن میں وسائل جاتے تو سب کو نظر آتے ہیں مگر واپس آتے ٹپائی نہیں دیتے۔

سیدھی سیدھی بات یہ ہے کہ مجھے بطور عام آدمی اب یہ کھرچنے سے قطعاً دلچسپی نہیں رہی کہ کس نے کس طرح مال بنایا ہے یا نوٹ چھاپے۔ میرا تو بس اتنا سا مسئلہ ہے کہ رات کو بچے بھوکے نہ سوئیں اور صبح اسکول خالی پیٹ نہ جائیں۔

اور اسکول ضرور جائیں کیونکہ یہ ان کا پیدائشی اور آئینی حق ہے اور ریاست کو کوئی حق نہیں کہ وہ ان بچوں کی تعلیمی حق تلفی کو کسی بھی بہانے کی دھجیوں سے چھپانے کی کوشش کرے۔ اگر میرا بچے کو ایک معیاری تعلیم فراہم کرنے والے سرکاری اسکول میں بھی داخلے کی ضمانت نہیں تو پھر کسی بھی جج، جنرل، نیتا، افسر شاہ، صنعتکار اور سہولت کار کو حق نہیں کہ وہ میرے بچوں کے مستقبل کی قیمت پر اپنے بچے پڑھائے۔

آپ سوچ رہے ہیں تو سوچتے رہیں کہ میں کیسی عجیب باتیں کر رہا ہوں۔ کیا آپ کو تب عجیب نہیں لگتا کہ ایک بنیادی حق جو خدا نے، اقوامِ متحدہ نے اور میرے آئین نے مجھے دیا ہے مجھ تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی اغوا ہو جائے۔

آپ بھلے کوئی بھی تاویل یا خوشنما استعارہ گھڑ کے خود کو دھوکا دے لیں مگر میرے نزدیک ایک یونیورسل حق کو رعائیت یا احسان گرداننے کا مطلب اس حق کو غصب کرنا ہے اور جو اس کائنات گیر حق کو اپنے تک محدود رکھنے پر بضد ہیں وہ غاصب ہیں اور غصب کرنے کے عمل کو زودِ ہضم اور حلال قرار دینے کے لیے آپ کوئی بھی قانون بنا لیں وہ ایک ناجائز اور ظالمانہ قانون ہی کہلائے گا۔

پریشان مت ہوں۔ میں کوئی خدائی فوجدار نہیں۔ زندگی کے روز و شب نے اس قدر ادھ موا کر دیا ہے کہ میں یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ کس کے پاس کتنے پلاٹ کیوں ہیں، کون سی زمینوں پر قبضہ کس قانون کو موم کی ناک بنا کے جائز کر لیا گیا۔ کس کو کیوں ایکڑوں پر مشتمل فارم ہاؤس بلکہ فارم ہاؤسز الاٹ ہوئے۔ کس کس اشرافی کلب میں کس کس خوش نصیب کا داخلہ ممکن ہے۔

مجھے تو بس اتنا چاہیے کہ میرے کنبے کو بھی ایک چھت مل جائے جو بارش میں نہ ٹپکے اور جس کے نیچے سے مجھے کوئی بے دخل نہ کر سکے۔ یہ بھی کسی کا کوئی احسان نہیں ہوگا بلکہ یہ میرا پیدائشی اور آئینی حق ہے۔

میں نے یہ چھان پھٹک کرنے کا بھی ٹھیکہ نہیں لے رکھا کہ کس کی سفارش پر کس کا نورِ چشم کون سے جعلی ڈومیسائل پر کسی بھی باعزت کرسی پر پیراشوٹ کے ذریعے اترا ہے یا کسی پچھلے دروازے سے گھس کے براجمان ہو چکا ہے اور اس نے آگے اپنے کتنے درباریوں کو ایڈجسٹ کر دیا ہے۔ سسٹم ہی ایسا ہے تو میری بلا سے۔

مجھے نہ کوئی مخصوص نوکری چاہیے اور نہ ہی فلاں فلاں محکمے میں فلاں سیٹ پر میری نظر ہے۔ بس اتنا چاہتا ہوں کہ جب میری بیٹی یا بیٹا کسی مشتہر آسامی کے انٹرویو کے لیے طلب کیا جائے تو اسے صرف میرٹ پر فیل کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ خود کو خود پر، خاندان پر، دھرتی پر بوجھ سمجھے اور اتنا مایوس ہو جائے کہ یہاں رہنے سے کہیں بہتر یہ سمجھنے لگے کہ کسی بھی ٹوٹی کشتی پر سوار ہو کر قسمت آزمائی کے لیے موت کے جبڑوں میں جانا اس ملک میں مزید زندگی گذارنے سے ہزار درجے بہتر ہے۔

مجھے آپ کی سبز نمبر پلیٹوں والی گاڑیوں کے آگے پیچھے انسانوں کو چیونٹیوں سے بھی زیادہ حقیر سمجھنے والے خونخوار محافظوں کی خونی نگاہوں کی ایک عرصے سے عادت پڑ چکی ہے۔

اب انھیں دیکھ کے نہ تو بے چینی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی توہین کا احساس ہوتا ہے اور نہ دماغ میں کیڑا کلبلاتا ہے کہ میں بھی اس شخص کی طرح اسی ملک کا برابر کا شہری ہوں جو ان زناٹے دار فوروہیلرز کے گھیرے میں ٹھنڈی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھا کہیں جا رہا ہے یا آ رہا ہے اور لاکھوں لوگ اس کے جلد گزرنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں تاکہ راستہ کھلے تو ایمولینسیں، اسکول کی گاڑیاں اور نوکری پر بروقت پہنچنے سے قاصر سیکڑوں موٹرسائیکلیں بھی جنبش کر سکیں۔

مجھے آپ کی ساری فرعونیت قبول ہے بس کوئی آپ میں سے یہ ضمانت دے دے کہ صبح صبح گھر سے نکلنے والا میرا بیٹا یا بیٹی شام کو بھی صحیح سلامت گھر لوٹ آئیں گے اور ان کا نام تلاشِ گمشدہ کی طویل تر ہوتی فہرست میں شامل نہیں ہوگا اور سڑک پر کچلے جانے کی صورت میں کوئی نہ کوئی انھیں کسی قریبی اسپتال پہنچا کر جیب سے نکلے کسی بھی نمبر پر اطلاع دے دے گا۔

اور ہاں میں اپنی اوقات سے بڑھ کے ایک اور فرمائش کرنے والا ہوں۔ یا تو مجھے جمہوریت کا سراب نہ دکھاؤ اور اپنی مرضی کی آمریت یا فسطائیت یا بادشاہت کا کھل کے اعلان کر دو اور یہ بھی بنا لگی لپٹی بتادو کہ میں ابھی بھی بلوغت کے اس معیار تک نہیں پہنچا کہ اپنا نمایندہ خود منتخب کر کے اس کے ہاتھ میں اختیار دیکھ سکوں۔

اگر تم واقعی قائل ہو کہ میں باہوش و حواس ووٹ کے ذریعے فیصلہ نہیں کر سکتا تو پھر بیلٹ بکس میں سے میری پرچی کے بجائے ہیٹ یا خرگوش نکال کے میرے حق پر ڈاکا نہ ڈالو۔

یہ بھی نہیں کر سکتے تو پھر روشن دان میں کیلیں ٹھونک دو۔ کیونکہ تازہ ہوا کے ساتھ مکھی اور مچھر بھی آئیں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہوا بھی تم سے اجازت لے کے چلے اور اپنے ساتھ آنے والوں کی فہرست بھی پیشگی تم سے منظور کروائے۔

اگر تم سب اتنا بھی نہیں کر سکتے تو پھر میں جو کر رہا ہوں اسے بدتمیزی یا نادانی یا بے وقوفی جتانے اور بتانے سے باز رہو۔ جب کچھ بھی نہیں تو پھر انارکی سہی۔

About Wusat Ullah Khan

Wusat Ullah Khan

Wusat Ullah Khan is associated with the BBC Urdu. His columns are published on BBC Urdu, Daily Express and Daily Dunya. He is regarded amongst senior Journalists.