کہانی یہ ہے کہ جمشید عرف سائرس اعظم عرف ذوالقرنین بادشاہ کہ جس کے سر پے عقل و شعور، آب، ہوا اور آتش کے خدا اہور مزدا کا ہاتھ تھا اور جو تختِ جمشید (پرسی پولس) میں سریرآرا ایک عظیم الشان سلطنت کا مختارِ کل تھا۔
جب جمشید خداوند اہور مزدا کے جڑواں بھائی اور قحط، بھک مری، تاریکی، رنج و اجل کے دیوتا اہرمن سے لڑائی میں فتح یاب ہوا تو ہر شاخ بارِ دگر ہری ہوگئی اور آسودگی و خوشحالی لوٹ آئی اور اس خوشی کو جشنِ نوروز کی شکل مل گئی۔
(یونانی مورخ زینوفون۔ چار سو اکتیس تا تین سو چون قبل مسیح)۔
شاہ نامہ فردوسی کے مطابق بادشاہ جمشید زر و جواہر سے مرصع تخت پر فروکش ہوا اور یہ تخت فضا میں بلند ہوا اور اس جڑاؤ تخت سے خیرہ کر دینے والی روشنیاں یوں پھوٹیں کہ سورج کی آب و تاب ماند پڑ گئی۔ سنگ دل موسمِ سرما پسپا ہوا اور بہار کی کلیاں نمودار ہوئیں اور نوروز (نیادن) طلوع ہوا۔
اس کا مطلب ہے کہ نوروز کی روایت کم از کم تین ہزار برس پرانی ہے۔ اس عرصے میں نت نئے مذاہب آئے، بہت سے وقت کے دھندلکوں میں گم ہو گئے، کچھ رہ گئے، سلطنتیں ابھریں اور مٹ گئیں۔ قتالہ وبائیں آئیں اور گذر گئیں، تاریخ نے ان گنت پنے پلٹ دیے۔ نہیں بگڑا تو جشنِ نوروز کی روایت کا کچھ نہ بگڑا۔
آج بھی وسطی ایشیا و افغانستان سے بلادِ شام، آذربائیجان تا ہندوستان لگ بھگ چالیس کروڑ نفوس مارچ کے آخری عشرے میں آمدِ بہار کا جشن تیرہ روز تک مناتے ہیں (کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پنجاب کی بیساکھی بھی نوروز کی کوکھ سے نکلی)
جب چوالیس برس پہلے ایران میں بادشاہت کا تختہ الٹا گیا تو مذہبی حکومت نے نوروز کو قبل از اسلام کی اصنام پرستانہ بدعت قرار دے کے اس سے فاصلہ کرنے کی کوشش کی۔ نوروز چونکہ وسطی و مغربی ایشیائی تہذیب کے ڈی این اے میں شامل ہے۔
لہٰذا مذہبی حکومت اس کا بال بیکا نہ کر سکی۔ چنانچہ حکمت سے کام لیتے ہوئے اس " بدعت" کو سرکاری طور پر نوروزِ پیروزی یعنی فتح مندی کا دن قرار دے کراس قدیم روایت کو ریاستی سطح پر " نظریا " لیا گیا۔ دو عناصر آج بھی مستثنیات میں شامل ہیں۔ نوروز اور تہران یونیورسٹی میں ایستادہ فردوسی کا مجسمہ۔
اگرچہ انیس سو چھیانوے سے اکتوبر سن دو ہزار ایک تک طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں عیدِ نوروز برسرِعام منانے کی روایت پر پابندی عائد کردی گئی مگر ازبک و تاجک و ہزارہ اکثریتی وسطی و شمالی و مغربی افغانستان میں یہ پابندی نافذ نہ ہو سکی۔ مزارِ شریف میں گلِ سرخ کے نام سے جشنِ نوروزِ بہاراں اور بزکشی کے میلے کا تسلسل کبھی نہ ٹوٹ پایا۔
اس بار طالبان نے نوروز کے بارے میں سخت گیری برتنے کے بجائے بظاہر لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے۔
اقتصادی حالت ویسے بھی پتلی ہے اور ان حالات میں اگر کوئی عیدِ نوروز کے موقع پر اپنا گھر تھوڑا بہت قمقما لیتا ہے یا نئے کپڑے پہن کے سڑک پے کچھ کھا پی لیتا ہے یا کابل میں سخی شاہ مردان کے مزار پر بلند آہنگ میں کچھ گا بجا لیتا ہے یا ہلکا سا تھرک لیتا ہے تو کسی کے باپ کا کیا جاتا ہے۔
سخی شاہ مردان کا دربار دو ہزار اٹھارہ کے نوروز میں داعش کی دہشت گردی کا نشانہ بھی بن چکا ہے جس میں اکتیس جانیں گئی تھیں، مگر اس واردات کے بعد شاہ مردان کے مزار پر نوروزی ہر برس پہلے سے زیادہ جمع ہوتے ہیں اور کچھ دیر کے لیے اپنا تلخ آس پاس بھول جاتے ہیں۔
شاید ہی انسانی تاریخ میں کوئی ایسا تہوار ہو جسے دو مختلف مذاہب کے ماننے والے یکساں جوش و خروش سے مناتے ہوں۔
نوروز پارسی تین ہزار برس سے اور مسلمان ڈیڑھ ہزار برس سے منا رہے ہیں۔ سنی کردوں اور شیعہ ایرانیوں یا عراقیوں میں آپس میں بھلے نہ بنتی ہو مگر نوروز پر اختلاف نہیں۔ منانے کے بنیادی آداب و رسومات بھی کم و بیش وہی چلے آ رہے ہیں۔
جس طرح سانتا کلاز بابا کرسمس کا روپ دھارے تہوار سے قبل نمودار ہوتا ہے اسی طرح ایران کے ہر چھوٹے بڑے قصبے میں دف بجاتا لہراتا گاتا کردار (حاجی فیروز) نمودار ہوتا ہے۔ سرخ لباس، چہرہ کالک سے پتا ہوا۔ حاجی فیروز نوروز کی روایت کا کب حصہ بنا کوئی ٹھیک سے نہیں بتا پاتا۔
البتہ حالیہ برسوں میں سیاہ فام ایرانیوں نے حاجی فیروز کا نوٹس لینا شروع کر دیا ہے اور اسے نسلی امتیاز کا استعارہ قرار دیا ہے۔
یہ سیاہ فام ایرانی پچھلے ڈھائی تین سو برس قبل افریقہ سے یہاں لائے گئے تھے۔ ان کی اکثریت جنوبی و ساحلی صوبوں میں آباد ہے۔ ایران میں انیس سو انتیس میں جسمانی غلامی ممنوع قرار دی گئی مگر حاجی فیروز آج بھی اپنے کھلتی رنگت والے آقاؤں کو نوروز سے پہلے جگانے اور محظوظ کرنے آتا ہے۔
ہفتوں پہلے سے گھروں کی اچھے سے صفائیاں دھلائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ مخصوص پکوانوں کے اجزا کی خریداری گرم ہو جاتی ہے۔ ایک ڈش نما برتن میں مٹی بھر کے اس میں گیہوں کے دانے ڈالے جاتے ہیں تاکہ نوروز تک سبز بالیاں پھوٹ پڑیں۔ گویا حیاتِ نو نمو پذیر ہو۔ اس برتن کو بھی سبزہ یا سبزے کہا جاتا ہے۔
جب سبزہ پھوٹ پڑتا ہے تو اس برتن کو ایک مخصوص میزِ ہفت س پر دھرا جاتا ہے۔ اس پر سات ایسی اشیا سجائی جاتی ہیں جن کا نام س سے شروع ہوتاہے۔ یعنی سبزہ (گیہوں کی بالیاں)، سیب، سنجد(خشک توت)، سمانو (گیہوں کا حلوہ)، سماق (سرخی مائل خوردنی جڑی بوٹی)، سرکہ، سیر (لہسن)۔
س سے شروع ہونے والی یہ سات اشیا کس جانب اشارہ کرتی ہیں؟
سبزہ حیاتیاتی نمو کا استعارہ ہے۔ سنجد شعور، سمانو قوت و انصاف، سماق قوتِ برداشت، سرکہ طویل العمری اور سیر جسم اور ماحول کی صفائی کا استعارہ ہے۔
ان اشیا کے علاوہ ہفت س میز پر آئینہ دھرا جاتا ہے تاکہ ہر کوئی اپنا عکس دیکھ سکے۔ جنسی زرخیزی کے اظہار کے لیے رنگین انڈے اور رنگِ حیات ظاہر کرنے کے لیے پیالے میں گولڈ فش بھی تیرتی رہتی ہے۔ پارسی ہفت س میز پر مقدس کتاب اوستا رکھتے ہیں۔ مسلمان قرآن پاک یا دیوانِ حافظ دھرتے ہیں۔
تیرہویں روز کھلی جگہوں پر اہلِ خانہ و دوستوں کی پکنک کا سماں ہوتا ہے اور وہ سبزہ جو برتن میں اگایا جاتا ہے کسی کھیت یا آبِ رواں کی نذر کر دیا جاتا ہے تاکہ زندگی کا جزو حیاتِ کل کا حصہ بن جائے اور دائرہ مکمل کرکے اگلے برس پھر خوشیاں ساتھ لائے۔
تو یہ ہے نوروز کا قصہ جسے ہماری نانی آخری چہار شنبہ کہتی تھیں۔