افغانستان کے انتہائی جنوبی صوبے نیمروز کا شہر زرنج پہلا صوبائی دارالحکومت تھا جس پر طالبان نے چھ اگست کو قبضہ کیا اور نو روز بعد پندرہ اگست کو طالبان کابل میں تھے۔ اس وقت افغانستان کے چونتیس میں سے تینتیس صوبے طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ مگر جتنے دن میں یہ تینتیس صوبے فتح ہوئے ان سے دگنے دنوں کی کوششوں کے باوجود کابل سے دو سوا دو گھنٹے کی مسافت پر واقع چونتیسواں اور سب سے چھوٹا صوبہ پنج شیر حلق میں کانٹے کی طرح پھنسا ہوا ہے (جب تک یہ کالم آپ تک پہنچے تب تک یا تو پنج شیر کا قصہ تمام ہو چکا ہوگا یا پھر وہ بدستور یقین و بے یقینی کے درمیان معلق ہوگا۔)
پنج شیر پر قبضہ یوں اہم ہے کیونکہ اس کے بعد ہی طالبان خود کو دنیا کے سامنے ملک کے کلی اقتدارِ اعلیٰ کے جائز مالک کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ پنج شیر پر قبضہ فریقین کی انا کا بھی مسئلہ ہے۔ کیونکہ پنج شیر بھی ان علاقوں میں شامل تھا جو پہلی طالبان اماراتِ اسلامی (انیس سو چھیانوے تا دو ہزار ایک) میں شامل نہ کیے جا سکے۔
سات اکتوبر دو ہزار ایک کو امریکی فضائیہ کے ڈیزی کٹر بموں کے سائے میں جس شمالی اتحاد نے کابل تک تیزی سے پیش قدمی کی اس کی بنیاد احمد شاہ مسعود المعروف شیرِ پنج شیر نے رکھی تھی۔ انھیں نائن الیون سے دو دن پہلے ایک مووی کیمرے میں چھپائے گئے بم کے ذریعے صحافیوں کے بھیس میں بھیجے گئے القاعدہ کے دو ارکان نے قتل کر دیا تھا۔ امریکی قبضے کے بعد جو حکومت بنی اس میں پنجشیری تاجکوں کی کلیدی اہمیت تھی۔
اس پس منظر کے ہوتے جب گزشتہ ہفتے وادی پر طالبان کے مکمل قبضے کی خبر اڑی تو جشنِ افواہ کے دوران کابل میں طالبان حامیوں کی بے تحاشا ہوائی فائرنگ میں سترہ افراد ہلاک اور چالیس کے لگ بھگ زخمی ہو گئے۔
وادی پنج شیر دو ہزار چار تک صوبہ پروان کا حصہ تھی۔ کرزئی دور میں اسے علیحدہ صوبہ بنایا گیا جو سات قصبوں اور پانچ سو گیارہ دیہاتوں پر مشتمل ہے جہاں دری بولنے والے تاجک بستے ہیں وادی پنج شیر کے اندر اکیس ذیلی وادیاں ہیں۔ (مجموعی طور پر شمالی و مشرقی صوبوں میں بسنے والے تاجک افغانستان کی کل آبادی کا ایک چوتھائی بنتے ہیں)۔
پنج شیر کی لمبائی تقریباً سو بیس کلو میٹر ہے۔ یہ ایک قدرتی قلعہ ہے جو لگ بھگ دس ہزار فٹ بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ ویسے تو اس وادی سے شمال کے میدانوں میں اترنے کے لیے درہِ خوا ک اور مشرق میں بدخشاں سے ملانے کے لیے درہِ انجمن بھی ہے مگر دونوں دروں کی دشوار آمد و رفت کے مزاج سے مقامی باشندے ہی واقف ہیں۔ یا پھر پرانے وقتوں میں سکندرِ اعظم اور اس کے بعد تیمور لنگ نے درہِ انجمن سے گذرنے کی ہمت کی۔
وادی میں داخلے کے لیے عام راستہ سالانگ ہائی وے سے مڑتا ہے۔ یہ ہائی وے شمال میں کوہ ِ ہندو کش چیرنے والی سالانگ سرنگ کے ذریعے دارالحکومت کابل کو قندوز اور مزارِ شریف سے ملاتی ہے۔ اور اسی راستے سے مزار شریف سے اوپر تاجکستان بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
مگر وادی پنج شیر کا واحد آسان خارجی و داخلی راستہ بھی بوتل کے گلے جیسی تنگ پہاڑی گذرگاہ میں سے رینگتا ہوا نکلتاہے۔ چنانچہ خارجی حملہ آور بہت تنگ ہوتے ہیں۔ اس قلعہ بند جغرافیے کے سبب انگریز سے لے کر روسیوں تک کوئی بھی اس وادی کو باقی ملک زیر کرنے کے باوجود اپنے اختیار میں نہ رکھ پایا۔ پنج شیری اتنے آزاد طبع ہیں کہ دیگر افغان صوبوں کے برعکس یہاں کا گورنر ہمیشہ کوئی مقامی رہا ہے۔
اس وادی کے باشندوں کا گذارہ زراعت و مویشی بانی اور سرکاری نوکری پر ہے۔ کولمبیا کے بعد اعلیٰ قسم کا زمرد اسی وادی سے نکلتا ہے اور زمرد کی کان کنی پہلی صدی عیسوی سے ہو رہی ہے۔
پچھلے چالیس برس سے اس وادی کے گھروں میں سب سے مشہور پنج شیری احمد شاہ مسعود کی تصویر ہے۔ وہ خود بھی ایک فوجی افسر کے بیٹے اور پڑھنے لکھنے کے شوقین تھے۔ انگریزی اور فرانسیسی یکساں صحت کے ساتھ بولتے تھے اور ان کا شمار سوویت قبضے کے دور میں بہترین جنگی دماغوں میں کیا جانے لگا۔
کابل میں انقلابِ ثور اپریل انیس سو اٹہتر میں آیا۔ احمد شاہ مسعود نے اگلے برس اگست تک وادیِ پنج شیر سے کابل حکومت کی رٹ ختم کر دی۔ دسمبر انیس سو اناسی میں سوویت فوجیں افغانستان میں اتریں۔ سوویت جنرلوں کے پیشِ نظر یہ دردِ سر بھی تھا کہ سوویت ریاست تاجکستان سے کابل تک رسد کے واحد راستے سالانگ ہائی وے کو کیسے کھلا رکھا جائے۔ یہ ہائی وے اور درہِ سالانگ مسلسل احمد شاہ مسعود کے حامیوں کی مسلسل چھاپہ مار کارروائیوں کی زد میں تھے۔
چنانچہ مسعود کو کھدیڑنے کے لیے پہلی سوویت فوجی کارروائی اپریل انیس سو اسی میں ہوئی اور آخری فوجی آپریشن جون انیس سو پچاسی میں ہوا۔ جانی و عسکری نقصان اچھا خاصا ہوا اور تمام کوششیں ناکام رہیں۔ پنجشیریوں کی اس تکنیک کا توڑ مشکل تھا کہ وہ حملے سے پہلے پہلے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں میں گم ہو جاتے اور حملہ آور کو وادی میں دور تک اندر آنے دیتے۔ اور پھر کھلے میدان میں براجمان حملہ آور کا پہاڑی بلندیوں سے شکار شروع ہو جاتا اور اسے چند ہی دنوں میں زچ ہو کر وادی سے نکلنا پڑتا۔
احمد شاہ مسعود مجاہدین کے واحد کمانڈر تھے جن سے سوویت فوجی قیادت نے دو بار جنگ بندی کا معاہدہ کیا تاکہ شاہراہِ سالانگ کھلی رہے۔ جنوری انیس سو تراسی میں ہونے والا امن سمجھوتہ ایک سال برقرار رہا۔ مگر جون انیس سو پچاسی میں نویں روسی حملے کے بعد فریقین میں غیر اعلانیہ جنگ بندی سوویت فوجوں کے افغانستان سے مکمل انخلا تک کم و بیش قائم رہی۔
انیس سو بانوے میں نجیب اللہ حکومت کے خاتمے کے بعد تاجک کچھ عرصے کے لیے بادشاہ گر بن گئے اور جب انیس سو چھیانوے میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو طالبان مخالف گروہوں نے احمد شاہ مسعود کی قیادت میں شمالی اتحاد تشکیل دیا۔ طالبان اپنی معزولی تک صرف ستر فیصد افغانستان پر ہی قابض رہے۔
کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں تاجک کلیدی انتظامی و عسکری عہدوں پر فائز رہے۔ گزشتہ بیس برس میں افغان اور امریکی دستے پنج شیریوں کی رضامندی سے وادی میں تعینات رہے۔ اس دوران وادی میں آبی اور بادبانی توانائی اور نئی سڑکوں کے کئی منصوبے مکمل ہوئے اور مقامیوں کے لیے روزگاری مواقعے بھی بہتر ہوئے۔
طالبان کے کابل میں داخلے کے بعد افغان اسپیشل فورسز کے بہت سے فوجی بھاری اسلحے کے ساتھ وادیِ پنج شیر منتقل ہو گئے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور سابق حکومت کے نائب صدر امر اللہ صالح نے شمالی اتحاد کو قومی مزاحتمی فرنٹ کے نام سے بحال کرنے کا اعلان کیا۔
احمد مسعود لندن کے کنگز کالج اور سینڈ ہرسٹ اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہیں مگر والد کے برعکس انھیں لڑائی کا عملی تجربہ نہیں۔ گزشتہ ہفتے ان کا ایک مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہوا۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ کسی بھی ناگہانی کا مقابلہ کرنے کے لیے پنج شیر میں ان کے والد کے دور سے ہی اسلحہ جمع ہو رہا ہے۔ مگر مغربی دوست ممالک کی مدد کے بغیر لامحدود وقت تک لڑنا مشکل ہوگا۔
طالبان اور احمد مسعود کے نمایندوں میں پچیس اگست کو بات چیت کا ایک ناکام دور ہوا۔ اس کے بعد سے پنج شیر طالبان کے کڑے فوجی اور رسدی محاصرے میں ہیں۔ وادی پر قبضہ کرنا اتنا مشکل بھی نہیں سوویت فوج دو بار وادی میں کئی ماہ تک رہ چکی ہے۔ لیکن حقیقی فتح تب تک مشکل ہے جب تک پنجشیریوں کے آزمودہ چھاپہ مار داؤ پیچ کا موثر توڑ تلاش نہیں ہوتا۔
طالبان کو یہ سہولت ہے کہ اس وقت ہر گذرگاہ پر ان کا پہرہ ہے۔ اور ہمسایہ ممالک بھی طالبان کی راہ میں فوری کانٹے بچھانے کے بجائے انھیں کچھ وقت دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ پنج شیریوں پر ایک ایک دن بھاری ہے۔ شاید پنج شیریوں کو اتنے کڑے چیلنج کا پہلے کبھی سامنا نہیں رہا۔ گویا پنج شیریوں کے پاس گھڑی ہے اور طالبان کے پاس وقت۔ اگر احمد شاہ مسعود زندہ ہوتے تو اس وقت جانے کیا تگڑم لڑاتے؟