عمران خان، مریم نواز، شہباز شریف اور بلاول تو سنیچر اور اتوار کو بھی چھٹی نہیں کرتے۔ اب تو سب پیشگی جانتے ہیں کہ یہ اکابرین و مدبرین و منطقین کون سے ساڑھے تین مسائل پر کونسی کیسٹ تین ہزار ایک سو بانویں دفعہ سنائیں گے۔
حال یہ ہوگیا ہے کہ ان سب کی تقاریر ہونے سے پہلے ہی لوگ ازبر کر لیتے ہیں اور انھیں یہ تک معلوم ہوتا ہے کہ آج ان رول ماڈلز کے جملوں کی ترتیب کیا ہوگی اور کون کون سی شخصیات و ادارے ہدف ہوں گے۔
مگر ہمارے دلارے مولانا فضل الرحمان صاحب اس بھیڑ چال سے بالکل الگ پہچان رکھتے ہیں۔ کم بولتے ہیں، نپا تلا بولتے ہیں، منطق کے سائے میں بولتے ہیں اور لسانی دسترس کے ساتھ دل نشیں انداز میں بولتے ہیں۔
یہی وہ اوصاف ہیں جن کے سبب مولانا موجودہ سیاسی صفِ اول میں ہمیں سب سے زیادہ بھاتے ہیں، اور ہم باقاعدہ ان کے قیمتی فرمودات کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔
گزشتہ روز بہت دنوں بعد مولانا نے ایک میڈیائی مجلس بپا کی۔ موضوعِ سخن صوبائی انتخابات اور عدلیہ کا طرزِ عمل تھا۔
آپ نے فرمایا کہ آج ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے نوے دن کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد ایک آئینی ضرورت ہے، مگر اسی سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کو نہ صرف آئین میں ترمیم کی اجازت دی بلکہ انھیں نوے دن کے بجائے تین برس کے اندر انتخابات کروانے کی چھوٹ دی۔
آپ نے فرمایا کہ اگرچہ دو صوبوں میں نوے روز میں انتخابات کروانے کے حکم کو پانچ رکنی بنچ کا تین دو کا فیصلہ کہا جارہا ہے مگر اس فیصلے میں گزشتہ نو رکنی بنچ کے دو فاضل ججوں کے اختلافی نوٹ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
ان حوالوں کے سبب یہ دراصل تین دو کا نہیں بلکہ چار اور تین کا فیصلہ ہے جس میں چار جج انتخابات نوے دن میں کروانے سے متعلق سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے فیصلے کو درست نہیں مانتے اور تین جج درست مانتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ حکومت بھی چاہتی ہے کہ انتخابات آئینی مدت میں ہوں لیکن اس کے پیشِ نظر کمزور معیشت، ہوشربا مہنگائی اور امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال بھی ہے۔ متعلقہ ادارے بیلٹ پیپرز چھاپنے کے لیے ایسے وقت اسی ارب روپے مانگ رہے ہیں جب ریاست غریبوں کی روٹی تک پوری نہیں کر پا رہی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے نمٹنے پر توجہ دیں یا الیکشن کی ڈیوٹی دیں؟ خود عدلیہ بھی بطور پریذائڈنگ افسر اپنے اہلکار مطلوبہ تعداد میں فراہم کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔
مولانا نے فرمایا کہ اس وقت آئی ایم ایف پاکستان کا بجٹ بنا رہا ہے اور قیمتیں کنٹرول کر رہا ہے۔ اس کا رویہ پاکستان کے معاملے میں بوجوہ معمول سے زیادہ سخت ہے اور وہ دوست ممالک کو بھی پاکستان کی مدد کرنے سے روکنے کے لیے روڑے اٹکا رہا ہے۔
مولانا کی یہی بات سب سے اچھی ہے کہ وہ بغیر لگی لپٹی حالِ دل بیان کر دیتے ہیں۔ انھوں نے کھلے دل سے اعتراف کر لیا کہ امن و امان اور معیشت حکومت کے قابو میں نہیں اور آئی ایم ایف نے پاکستان کو عملاً ٹیک اوور کر لیا ہے۔
مگر مجبوری یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر بھی گذارہ نہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ بھی گذارہ نہیں اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ اب ہمارے جو بھی دو چار سجن جگری ممالک بچے ہیں وہ ہماری مجبوریوں اور قسموں وعدوں کو پہلے کی طرح سنجیدگی سے نہیں لیتے اور ہماری چلی پکار سننے کے بعد آئی ایم ایف سے تصدیق کرتے ہیں کہ کیا یہ پاکستانی ٹھیک کہہ رہے ہیں یا پہلے کی طرح ماموں بنا رہے ہیں۔
جہاں تک پرویز مشرف کو تین برس میں انتخابات کروانے کی چھوٹ اور آئین میں ترمیم کا اختیار دینے کے عدالتی استثنیٰ کا معاملہ ہے تو اس عمل کی مذمت تو بنتی ہے لیکن اسے ایک جمہوری رہنما اپنے کسی ماورائے آئین موقف کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرے تو عجیب سا لگتا ہے اور وہ بھی ایک ایسے رہنما کی جانب سے جس کی جماعت نے انیس سو اسی کے عشرے میں کھل کے فوجی آمریت کی مخالفت کی اور ایم آر ڈی کی تحریکِ بحالی جمہوریت میں کلیدی کردار ادا کیا۔
وہ الگ بات کہ مشرف آمریت کے دور میں آئین میں ترمیم کے اختیار کو نہ تو مولانا صاحب نے چیلنج کیا اور نہ ہی اس آمریت کے زیرِ سایہ دو ہزار دو میں ہونے والے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ بلکہ آپ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کے عہدے پر متمکن رہے۔ صوبہ سرحد (موجودہ کے پی کے) میں اکرم خان درانی کی متحدہ مجلسِ عمل حکومت بھی بنی۔
ستمبر دو ہزار سات میں جب پرویز مشرف نے دوسری بار صدر منتخب ہونے کا عندیہ دیا تو حزبِ اختلاف کے وسیع تر اتحاد اے پی ڈی ایم کا حصہ ہونے کے باوجود آپ نے صوبائی اسمبلی تب تک نہیں ٹوٹنے دی جب تک پرویز مشرف نے دوسری بار خود کو صدر منتخب نہیں کروا لیا۔ حالانکہ آپ چاہتے تو مشرف صاحب دوسری بار صدر نہیں بن سکتے تھے۔ لہٰذا آج عدلیہ کو پرویز مشرف کا طعنہ دینا مجھ جیسے معتقدینِ مولانا کو کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔
جہاں تک کمزور معیشت کو آئینی مدت میں انتخابات نہ کروانے کی راہ میں رکاوٹ بتانے کا معاملہ ہے۔ تو قرضوں، گرانٹس اور امریکی امداد پر چلنے والی معیشت پچھلی سات دہائیوں میں کب اس قابل تھی کہ انتخابات جیسی عیاشی کی متحمل ہو سکتی۔ یہاں ایک تصیحح ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی انتخابات کے لیے اسی ارب روپے کا نہیں بلکہ چودہ ارب روپے کا مطالبہ کیا ہے۔
اب جب ہم نے اور آپ نے جمہوریت کا ہاتھی پال ہی لیا ہے تو اس کے لیے گنوں کا انتظام ہاتھی کا مسئلہ تو نہیں۔ اسی طرح آئین کو بھی پھلنے پھولنے کے لیے قانون و انصاف پسند آب و ہوا اور اصول پسندی کا راتب چاہیے۔ آئین آپ کی مجبوریوں کا تو تابع نہیں ہو سکتا۔ آپ کو آئین کے تابع ہونا ہے ورنہ آپ میں اور کسی باوردی آمر میں کیا فرق رہیگا؟
جہاں تک امن و امان کا معاملہ ہے تو آپ کو یاد ہوگا کہ دو ہزار سات میں لال مسجد کے خلاف ایکشن کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کی پیدائش کے بعد دہشت گردی کی ایک مسلسل لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
کارساز بم دھماکے میں ایک سو اسی افراد شہید ہوئے۔ ستائیس دسمبر کو بی بی کی شہادت ہوئی۔ جنوری دو ہزار آٹھ میں انتالیس بڑے دہشت گرد حملوں میں چار سو ساٹھ اموات ہوئیں۔ اس کے باوجود فروری دو ہزار آٹھ میں عام انتخابات ہوئے۔ (جتنے دہشت گرد حملے جنوری دو ہزار آٹھ میں ہوئے اتنے تو پورے دو ہزار بائیس میں نہیں ہوئے)۔
دو ہزار تیرہ کی انتخابی مہم کے دوران مولانا صاحب پر بھی گھاتک حملے ہوئے۔ آپ سے بھی زیادہ نشانے پر عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور آزاد امیدوار تھے۔ طالبان نے صرف پی ٹی آئی کو این او سی دیا تھا۔
چار ماہ کی انتخابی مہم پر تین سو چھیاسٹھ دہشت گرد حملے ہوئے تھے اور ان حملوں میں چاروں صوبوں میں گیارہ سو بیس شہری، امیدوار اور سیاسی رہنما شہید ہوئے تھے۔ مگر آپ سمیت کسی قومی رہنما نے ایک بار بھی انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ شاید دہشت گردوں کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ تمہارے دباؤ میں آ کر ہم جمہوری عمل سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
دو ہزار اٹھارہ کے پہلے چھ ماہ میں دو ہزار بائیس کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا دہشت گرد کارروائیاں ہوئیں مگر جولائی میں انتخابات پھر بھی ہوئے۔ آج تو امن و امان کے حالات خراب ہونے کے باوجود بھی گزشتہ تین انتخابات کے مقابلے میں بہت غنیمت ہیں۔ لہٰذا امن و امان کی خرابی کو تو التوا کی دلیل مت بنائیے سر کار۔
اگر آج بھی عمران خان کی حکومت ہوتی اور وہ انتخابات آگے ٹالنے کے لیے بعینہہ یہی دلائل دیتی جو آپ دے رہے ہیں تو کیا آپ پی ٹی آئی کے موقف کی تائید کرتے؟ آج آپ کو یقین ہوتا کہ پی ڈی ایم انتخابات میں پی ٹی آئی کو پچھاڑ دے گی تو تب بھی آپ یہ پریس کانفرنس انھی دلائل کے ساتھ کرتے؟