جب اگست کے آخری ہفتے میں پوری دنیا کی میڈیائی توجہ کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہونے والی افراتفری اور امریکی فوجی انخلا پر مرکوز تھی۔ کابل سے انتیس سو کلومیٹر پرے بغداد میں ایک اعلیٰ سطح کی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی۔
اٹھائیس اگست کو ہونے والی اس کانفرنس کا میزبان عراق اور شریک میزبان فرانس تھا۔ اس کا مقصد امریکا کی مغربی ایشیا اور مشرقِ وسطی سے مرحلہ وار تزویری دستبرداری سے پیدا ہونے والے خلا کو تعمیری انداز میں پر کرنے کی ایک بھرپور کوشش تھا۔
چونکہ ہر خبری ادارے کا کیمرہ کابل میں زیرِ استعمال تھا لہٰذا بغداد میں ہونے والی تاریخی کانفرنس کی جانب کسی کی بھرپور توجہ نہ گئی۔ ایک لحاظ سے یہ بہتر بھی ہوا کیونکہ سنجیدہ و حساس سفارت کاری کیمرے کے سامنے اکثر ٹھٹھول بن جاتی ہے۔
بغداد کانفرنس میں عراقی وزیرِ اعظم مصطفی الخدیمی اور وزیرِ خارجہ فواد حسین نے مصر کے فوجی صدر عبدالفتح السسی، اردن کے شاہ عبداللہ، امیرِ قطر شیخ حماد التہانی، فرانسیسی صدر ایمانویل میخواں، کویت کے وزیرِ اعظم شیخ صباح الخالد، متحدہ عرب امارات کے وزیرِ اعظم محمد بن راشد المکتوم، بحرینی وزیرِ اعظم سلمان بن حماد، سعودی وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان، ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور ترک وزیرِ خارجہ مہولت کاسگلو (خوش گلو) کو خوش آمدید کہا۔
شرکا جن ریاستوں کی نمایندگی کر رہے تھے ان میں سوائے ایران اور فرانس سب ممالک " نام نہاد امریکی کیمپ " میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے امریکا اس خطے سے الگ تھلگ ہو رہا ہے ویسے ویسے علاقائی طاقتیں ایک دوسرے سے پرامن بقاِ باہمی کی بنیاد پر مسابقت کی راہ سے "کاروباری مفاہمت " کی راہ پر آتی دکھائی دے رہی ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ مشرقی بحیرہ روم کے وسائل کی ملکیت پر گزشتہ برس فرانس اور مصر کے ترکی سے تعلقات انتہائی ابتر ہو چکے تھے اور فرانسیسی و ترک صدر کے درمیان تو باقاعدہ برے برے القابات کا تخاطبی میچ پڑ گیا تھا۔ مگر خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے سبب نہ صرف دونوں ممالک نے ٹھنڈے پن سے کام لینا شروع کیا بلکہ بغداد کانفرنس میں بھی شرکت کی۔
ترکی مشرقِ وسطی میں اخوان المسلمون کا کٹر حامی رہا جب کہ متحدہ عرب امارات اخوان کا سخت دشمن۔ جب مصر میں جنرل السسی نے دو ہزار تیرہ میں اخوان کی منتخب محمد مرسی حکومت کا سعودی و اماراتی مالی و سیاسی تائید سے تختہ الٹا تو ریاض اور ابوظہبی میں خوشیاں اور انقرہ میں سوگ منایا گیا۔
لیبیا کی خانہ جنگی میں ترکی اور متحدہ عرب امارات نے ایک دوسرے کو ہر طرح سے نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ جب دو ہزار سترہ میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر نے قطر کی اقتصادی و جغرافیائی ناکہ بندی میں بھرپور حصہ لیا تو ترکی نے قطر کی حمائیت میں اپنے ساڑھے تین ہزار فوجی وہاں پہنچا دیے۔ سعودی ترک تعلقات صحافی جمال خشوگی کے استنبول میں بہیمانہ قتل کے سبب انتہائی پستی میں جا گرے۔
بحرین اور متحدہ عرب امارات نے خاموش سعودی تائید سے اسرائیل سے قریبی تعلقات قائم کرنے کا ہر موقع استعمال کیا اور ایک وقت تو یہ محسوس ہونے لگا کہ ایران کا حقہ پانی بند کرنے کے لیے اسرائیلی، سعودی، اماراتی، بحرینی ایک صفحے پر ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب کو یمن میں پانچ برس سے جاری مداخلت کا خرچہ بنا کوئی ٹھوس امید دلائے کھائے جا رہا ہے مگر وہ اب تک امریکا کی جانب سے سعودی یمن پالیسی سے لاتعلقی کو غیر اعلانیہ تائید سمجھتے ہوئے مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کی ناکام کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اب چہرے سے اکتاہٹ دن بہ دن نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔
جب بائیڈن انتظامیہ نے جنوری میں اختیارات سنبھالتے ہی مشرقِ وسطی اور افغانستان سے مرحلہ وار دست کش ہونے کے اشارے دیے اور خلیجی اتحادیوں کو بھی محسوس ہونے لگا کہ عرب امریکا تعلقات کا سنہرا دور قصہِ پارینہ بننے والا ہے اور امریکا " ہر قیمت پر یاروں کا ساتھ " دینے کی پالسیی مزید نبھانے کی سکت نہیں رکھ پا رہا تو پھر علاقائی ممالک نے تعلقاتی علمیت پسندی برتنے کے بارے سوچنا شروع کیا۔
گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر تہنون بن زید نے انقرہ میں صدر رجب طیب اردگان سے ملاقات کی اور دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے اور علاقائی مقابلے بازی کی شدت کم کرنے کی ضرورت سے اتفاق کیا۔ ترکی نے مصر کی السسی حکومت کی جانب بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور اخوان کی کھلم کھلا حمائیت کی پالیسی فی الوقت الماری میں مقفل کر دی ہے۔
اس برس کے شروع میں قطر کی چار سالہ ناکہ بندی کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اس ناکہ بندی کے خاتمے سے سعودی اور اماراتی تعلقات میں بھی تناؤ آ گیا تھا۔ کیونکہ امارات ناکہ بندی جاری رکھنے کے حق میں تھا۔ مگر پچھلے ماہ اماراتی سلامتی مشیر تہنون بن زاید نے دوہا میں امیرِ قطر سے ملاقات میں پچھلی باتیں بھولنے کی بات کی۔
تبدیلی کا اندازہ اس تصویر سے بھی ہو سکتا ہے جو گزشتہ ہفتے شایع ہوئی۔ اس میں بحیرہ قلزم کے ایک تفریحی مقام پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، امیرِ قطر اور اماراتی مشیرِ سلامتی نیکر اور شرٹ میں ایک ساتھ کھڑے دنیا پر ہنس رہے ہیں۔ چند ماہ قبل ایسی تصویر کا تصور بھی محال تھا۔
بغداد کانفرنس میں حریفوں کو ایک میز پر بٹھانے اور گروپ فوٹو پر آمادہ کرنے کے پیچھے عراقی حکومت کی خاصی عرق ریزی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں بغداد میں سعودی اور ایرانی سفارت کاروں کی متعدد خفیہ ملاقاتیں ہوئیں اور اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ مسابقت کو مسلسل کشیدگی کی صورت میں جاری رکھنا بدلے حالات میں کسی کے مفاد میں نہیں۔
اس کانفرنس میں نہ صرف سعودی و ایرانی بلکہ ایرانی وزیرِ خارجہ و اماراتی وزیرِ اعظم کے درمیان بھی بالمشافہ بات چیت ہوئی۔ کانفرنس کے انقعاد پر امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی عراقی صدر کو مبارک باد کا پیغام بھیجا۔
پس ایک بار پھر ثابت ہوا کہ بین الاقوامی تعلقات میں یاری کا مفہوم مفادات کی ہم آہنگی یا تصادم سے جڑا ہوا ہے۔ دشمنی جب خسارے کا سودا بن جائے تو ہم آہنگی اس کی جگہ لینے لگتی ہے اور جب ہم آہنگی بدلتے مفادات پر بوجھ بننے لگے تو مسابقت دلوں پر پڑاؤ ڈال دیتی ہے۔ جس جس نے بھی بین الاقوامی تعلقات کو دماغ کے بجائے دل سے جوڑنے کی کوشش کی بے شک وہ خسارے میں ہے۔