Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. 554 Arab Rupay Ka Istemaal

554 Arab Rupay Ka Istemaal

ایک اخباری اطلاع کے مطابق پاکستانی ہر سال 554 ارب روپے خیراتی اداروں کو دیتے ہیں۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ26 فیصد پاکستانی یہ نہیں جانتے کہ ان کی دی ہوئی خیرات کہاں اور کن کاموں میں استعمال ہوتی ہے جس ملک میں اتنی بڑی رقم صرف خیراتی اداروں کو دی جاتی ہے، ایسے ملک میں غربت کا رونا جائز ہوگا؟ ہمارے مذہب میں خیرات کو ایک نیک کام کی حیثیت حاصل ہے چونکہ اس نیکی کا حکم مذہب کے حوالے سے ہوتا ہے لہٰذا صاحب حیثیت ہی نہیں بلکہ عام آدمی بھی اس نیکی میں حسب حیثیت شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے، اسی وجہ سے ہر سال اتنی بھاری رقم جمع ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ سیکڑوں نامعلوم تنظیموں کی طرف سے کمیشن یافتہ رضاکار ہاتھوں میں مفروضہ اداروں کے نام سے کاپیاں لے کر عوام میں عوام کے گھروں پر جا کر مسجدوں کی تعمیر اور ناداروں کی مدد کے نام پر چندہ یا خیرات وصول کرتے ہیں جو مجموعی طور پر کروڑوں روپوں میں ہوتی ہے۔

مذہب نے غریبوں ناداروں کی مدد کو نیکی کہا ہے بلاشبہ ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے، یہ ایک بڑی نیکی ہے لیکن جس نظام سرمایہ داری میں ہم زندہ ہیں، اس میں نیکیاں بھی بیچی اور خریدی جاتی ہیں۔ ایسے نظام میں اربوں کی رقم کا کیا حشر ہوتا ہوگا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ زکوٰۃ اور خیرات بے شک ایک نیک عمل ہے لیکن اس کا استعمال کس طرح اور کہاں ہوتا ہے یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بے شمار ادارے اور اشخاص اس کاروبار میں ملوث ہیں اور لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔ بے سہارا اور مجبور بچوں کو یہ گینگ ہر صبح جگہ مقررہ پر ڈراپ کر جاتے ہیں اور یہ مجبور بچے جن میں کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہوا ہوتا ہے کوئی لنگڑا ہوتا ہے، کوئی اندھا ہوتا ہے انھیں شام میں "ٹھیکیداروں " کی گاڑیاں آ کر منزل مقصود پر یعنی گینگ ماسٹر کے اڈے پر پہنچا دیتی ہیں جہاں دن بھر وصول کی جانے والی خیرات کی ایک ایک پائی وصول کرلی جاتی ہے اور اگر بنایا ہوا کوئی معذور خیرات کم لاتا ہے تو اس کی لاتوں گھونسوں سے ایسی تواضع کی جاتی ہے کہ یہ آرٹیفیشل معذور ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافی مانگتا ہے اور آیندہ کوٹہ پورا کرنے کی قسم کھاتا ہے یہ کارروائی دیگر معذور بچوں کے سامنے اس سفاکی کے ساتھ کی جاتی ہے کہ دیکھنے والوں کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

پولیس اس قسم کے معذوروں کو پکڑ لے جاتی ہے اور تھانوں میں بند کر دیتی ہے۔ ٹھیکیدار معذوروں کی گنتی کرتا ہے اور اگر معذور کم نظر آتے ہیں تو تھانوں سے رقم دے کر معذوروں کو لایا جاتا ہے اور دوسرے دن انھیں جگہ بدل کر بٹھا دیا جاتا ہے۔ یہ کارنامے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر روز صبح سے شام تک دیکھے جا سکتے ہیں اس کے علاوہ ایسے گینگ بھی ہیں جو کمیشن پر مجبور بچوں سے گھروں، بازاروں پر بھیک منگواتے ہیں اور اپنا کمیشن حاصل کرلیتے ہیں۔ ان معذوروں کے خلاف چھاپے مار کر انھیں سڑکوں، بازاروں سے گرفتار کرلیا جاتا ہے اور کمیشن لے کر یا بچوں کی دن بھر کی کمائی چھین کر انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 26 فیصد پاکستانی یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی دی ہوئی خیرات کہاں استعمال ہو رہی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ چھبیس فیصد نہیں بلکہ 80 فیصد پاکستانی یہ نہیں جانتے کہ ان کی دی ہوئی خیرات یا رقم کہاں استعمال ہو رہی ہے، جن پسماندہ ملکوں میں بازار حسن کی رہائشیوں سے کمیشن لے کر انھیں محفوظ طریقے سے جسم فروشی کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں اور ڈاکٹر حضرات ان جسم فروشوں کو "صحت مند" ہونے کے سرٹیفکیٹ فراہم کرتے ہیں ایسے ملکوں ایسے معاشروں کی حرمت کے کیا کہنے یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کا کمال ہے جسے دنیا کے لیے ناگزیر سمجھا اور کہا جاتا ہے، بھارت جیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں 36 لاکھ ناریاں جسم فروشی کا کام انجام دیتی ہیں۔

ہمارے ملک کے اس حوالے سے اعداد و شمار پرنٹ میڈیا میں ہماری نظروں سے نہیں گزرے۔ اپنا ایک ذاتی مشاہدہ قارئین کی نظر کرتے ہیں۔ یہ غالباً 1956کی بات ہے ہم چند دوست تفریح کی غرض سے اندرون سندھ گئے۔ سکھر، خیرپور وغیرہ دیکھنے کے بعد حیدرآباد پہنچے، واپسی کے اس سفر میں رات کا کھانا کھانے کے بعد ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں جگہ جگہ لوگ کھڑے ہوئے تھے اور کمروں میں جو دکان کی طرح چھوٹے چھوٹے تھے لڑکیاں کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں ان کے سامنے تیز روشنی کے بلب لگے ہوئے تھے لوگ آ جا رہے تھے معلوم ہوا یہ بازار حسن ہے اس واقعے کو اب لگ بھگ 50 سال ہو رہے ہیں، معلوم ہوا کہ یہ بازار آج بھی اپنی رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔ یہ کاروبار دنیا کے تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی حوالے سے جاری و ساری ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی سوغات ہے۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس ملک میں بھی پچاسوں کاروبار ایسے ہیں جو اپنی اصل میں کسی نہ کسی فروشی سے منسلک ہیں۔ ہمارے شہر کراچی میں ہزاروں بچے بچیاں اور خواتین بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔ درجنوں ٹھیکیدار اس کاروبار میں منسلک ہیں اور پکڑ دھکڑ کی رسم کے باوجود اب ہم شہر کی سڑکوں، بازاروں اور رہائشی بستیوں میں ہزاروں بھکایوں کو بھیک مانگتے دیکھتے ہیں جن میں سے اکثریت کراچی سے باہر کے خواتین و حضرات کی ہے۔ اس مرض کی جتنی دوا کرتے ہیں، اس کے ڈاکٹر کیونکہ پولیس اہلکار ہوتے ہیں اس لیے یہ مرض بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

آج کل ملک پر ایک مخلص اور ملک سے خرابیاں دور کرنے کا دعویدار حکمران ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خیرات کے نام پر سیکڑوں ادارے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ حکومت ایک سروے کرائے کہ اس حوالے سے کتنے ادارے کام کر رہے ہیں؟ کتنے اصل ہیں؟ کتنے جعلی۔ جو لوگ واقعی کام کرنے سے کسی حوالے سے بھی مجبور ہیں، ان کے لیے ایک تو روزگار کا انتظام کیا جائے۔ دوسرا جو معذور ہیں ان کے لیے ایک منظم اور باعزت طریقے سے کھانے پینے کا انتظام کرے۔ سڑکوں پر بھیک مانگنے کو جرم قرار دے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا دے۔