انسان اپنے ظرف اپنے نظریات اپنی شخصیت کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے مشکل یہ ہے کہ اپنی سوچ اپنی فکر اپنے نظریات اپنے پاؤں کی بیڑیاں بن جاتے ہیں۔ مثلاً ہوش سنبھالنے اور اپنی ذات سے آگہی کے بعد میں مستقل یہ سوچتا رہا ہوں کہ انسان انسان سے نفرت کیوں کرتا ہے، اس نفرت کی کئی وجہیں ہیں۔
مثلاً مذہبی تفریق، زبان اور قومیت کا فرق وغیرہ وغیرہ۔ بلاشبہ انسان انسان سے بغض رکھتا ہے نفرت کرتا ہے لیکن وہ یہ سوچنے کے لیے تیار نہیں کہ کیا یہ سارے محرکات انسان اپنی پیدائش کے ساتھ لاتا ہے یا عمر کے ساتھ ساتھ یہ مسئلے انسان سے چمٹتے جاتے ہیں۔ انسان یہ سب اختلافات ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں آتا بلکہ پیدائش کے ساتھ ہی اسے اس کا خاندان اس کی کمیونٹی ان اختلافات کو انسان کے ذہن میں انڈیلنا شروع کردیتے ہیں۔
عقائد کو اگر ہم انسان کا سرمایہ کہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان عقائدی ٹکراؤ سے بچ نہیں سکتا؟ بالکل بچ سکتا ہے کیونکہ عقائد قدرت کا عطیہ نہیں بلکہ ملک معاشرے کے عطا کردہ ہوتے ہیں دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ عقائدی تفریق نے دنیا میں انسانوں کا اتنا خون بہایا ہے جتنا کسی اور تفریق سے خون نہیں بہایا گیا۔
اس کے علاوہ زبان، رنگ، نسل اور قومیت نے بھی انسان کو ایک دوسرے سے نفرت کرنا سکھایا اور اس حوالے سے دلچسپ بات بلکہ المیہ یہی ہے کہ انسان ان مفروضوں کو اس قدر سر آنکھوں پر رکھتا ہے کہ اگر کوئی دوسرا انسان ان مفروضات کے خلاف زبان کھولے تو اس کی زبان قلم کردی جاتی ہے۔ لیکن اہل ظرف ان ساری رکاوٹوں کے باوجود انسان کو انسان سے قریب لانے اور ان حوالوں سے نفرت کرنے کے بجائے رواداری اور ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرنا سکھاتے ہیں۔
عقائد میں بڑی طاقت ہوتی ہے جس کا مقابلہ صرف ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ہندو اور مسلمان کو لے لیں، فکری اہلیت انسان میں جس قدر مضبوط ہوتی ہے وہ کسی نقصان کی پرواہ کیے بغیر سچ بولنے اور عقائدی منافرت سے انسان کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان کو انسان سے قریب لانے کی خواہش کتنی شدید ہو اس کوشش کی راہ میں اتنی دیواریں کھڑی کردی گئی ہیں کہ انھیں عبور کرنا آسان نہیں بلکہ دنیا کا دشوار ترین کام ہے لیکن مضبوط فکری سرمایہ رکھنے والے انسان کو انسان کے قریب لانے کے لیے اپنی ساری انسانی صلاحیتیں صرف کردیتے ہیں۔
میں نے انسانوں کو انسانوں کے قریب لانے ان کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے لیے اتنا سوچا ہے کہ ہمارے دماغ کی چولیں ہل گئی ہیں اور ڈاکٹروں نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ اگر ہم نے اس شدت سے سوچنا نہ چھوڑا تو ہم برین ہیمبرج کے شکار ہوجائیں گے۔ نیورو کے ڈاکٹرز ہمیں بار بار یاد دہانی کراتے ہیں کہ کسی بڑے ذہنی حادثے سے بچنے کے لیے آپ کو ذہن پر کم سے کم بوجھ ڈالنا ہوگا۔ یہ مسئلہ اگرچہ میری ذاتی زندگی کا ہے لیکن اس کا تعلق ہماری اس فکری کاوشوں سے ہے جس کا براہ راست تعلق دنیا بھر کے عوام کے بہتر مستقبل سے ہے۔
ہم اپنی ذات کے حوالے سے یہاں گفتگو کر رہے ہیں اور ہر وہ شخص جو دنیا کے عوام کی بھلائی کے لیے سوچتا ہے اس کا یہ حق ہے کہ اگر ضرورت محسوس ہو تو عوام کے بہتر مستقبل کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو میں اپنی ذات کا حوالہ دے تاکہ یہ حوالہ عوام کے بہتر مستقبل بھائی چارے اور رواداری کے کلچر کے فروغ میں ترغیب کا کام انجام دے سکے۔
ہر مذہب کا عقائدی اور عباداتی نظام مختلف ہونے کے باوجود اس میں بہتری اور رواداری کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے، اس حوالے سے اہل فکر کو اہل جنوں بننے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلمان کا عباداتی نظام دوسرے مذہب کے عباداتی نظام سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن تمام مذاہب کے ماننے والوں کے عقائد کا مرکز خدا ہے، ہم اس ہستی کو خدا کے نام سے یاد کرتے ہیں، ہندو مذہب کے ماننے والے اس ہستی کو بھگوان، پرماتما کے نام سے یاد کرتے ہیں، تو عیسائی اپنے گاڈ کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن سب کا مرکز ایک ہی ایسی ہستی ہے جو کائنات کا نظام چلا رہی ہے۔ عقائد دراصل ذہنی تسکین کا ذریعہ ہیں لیکن انسان نے اس عقائد کی رنگا رنگی کو نفرت کا ذریعہ بنا لیا۔
ہمارے اعتقاد کے مطابق حضرت آدمؑ انسانوں کے جد امجد ہیں اور دنیا کے سارے انسان آدمؑ کی اولاد ہیں اور خون کے رشتے میں بندے ہوئے ہیں۔ کیا آپ اس نظریے کے مثبت پہلوؤں کا اندازہ کرسکتے ہیں؟ حیاتیاتی علوم کو عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے فکری نظام میں وسعت اور رواداری پیدا ہو اور انسان جو اب تک کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے کا دشمن بنا ہوا ہے دوستی، بھائی بندی اور رواداری کے بندھنوں میں بندھ کر انسانیت کا سر بلند کرسکے۔