مہاجرین کا مسئلہ سیکڑوں نہیں ہزاروں سال پرانا ہے، عموماً عوام جنگوں کی وجہ سے اپنا گھر اپنا ملک چھوڑکر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ویسے تو کئی ملکوں میں مہاجرت کا سلسلہ جاری ہے لیکن مسلم ملکوں میں تسلسل کے ساتھ مہاجرت کا دلدوز سلسلہ جاری ہے۔
شام اس حوالے سے بہت زیادہ متاثر ملک ہے۔ ترکی میں شامی مہاجرین کی بہت بڑی تعداد پناہ گزین ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ترکی میں مہاجرین کی رہائش کی جگہ باقی نہیں رہی ہے اس لیے ترکی نے شامی مہاجرین کو پناہ دینے سے انکار کردیا ہے۔ ادلب میں شامی اور روسی فوج کی بمباری کی وجہ سے 80 ہزار افراد نقل مکانی کرکے ترک سرحد کی طرف آ رہے ہیں۔ اگر ادلب کے عوام کے خلاف تشدد ختم نہیں ہوا تو مہاجرین کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔
استنبول میں منعقدہ ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا شامی اور روسی فوج کی طرف سے بمباری کے بعد 80 ہزار سے زیادہ افراد ادلب سے نقل مکانی کرکے ترکی کی سرحد پر آرہے ہیں اگر تشدد ختم نہ ہوا تو مزید افراد ادلب سے نقل مکانی کرکے ترکی کی طرف آئیں گے، اب ترکی اکیلا اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ اردوان نے کہا کہ اس دباؤ کے منفی اثرات پورے یورپی یونین خاص طور پر یونان پر پڑیں گے۔ ترکی کا ایک وفد روس گیا ہے تاکہ اس نازک صورتحال پر غور کیا جاسکے۔
ہماری دنیا مہذب دنیا کہلاتی ہے، اس مہذب دنیا کے ادلب سے تشدد سے خوفزدہ ہوکر 80 ہزار باشندے شام سے دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ علاقائی تنازعات کا نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں بے گناہ شہری اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں ترک وطن کرنے والے شہریوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انھیں لے جانے والی کشتیوں میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ سیکڑوں لوگ سمندر میں گر کر ایک خوفناک موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہاجرین کی کثرت کی وجہ سے انھیں لینے سے انکار کر دیا جاتا ہے کیونکہ مہاجر مقامی افراد کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ ترکی کے ساتھ یہی صورتحال ہے۔ ادلب سے 80 ہزار تارکین وطن کا ریلا ترکی پہنچ گیا ہے 80 ہزار افراد کا بوجھ اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں۔ شرم کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ دنیا کے مختلف متحارب ملکوں میں برسوں سے جاری ہے خواتین اور چھوٹے چھوٹے بچوں پر مشتمل تارکین وطن کی کوئی منزل نہیں ہوتی جس ملک کی سرحدیں کھلی ملتی ہیں یہ قافلے ادھر کا رخ کرلیتے ہیں۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ برسوں سے ترک وطن کا سلسلہ جاری ہے اور تارکین وطن کو کسی نہ کسی ملک میں جگہ مل جاتی ہے مسئلہ یہ نہیں کہ تارکین وطن کا کوئی مستقل حل تلاش کرکے ترک وطن کے اس المناک سلسلے کو روکا جائے بلکہ مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ ایک ملک کتنے تارکین وطن کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔
اصولاً اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ تمام متحارب ملکوں کو جنگوں کے کلچر سے نکال کر دنیا کو امن و امان کا گہوارا بنائیں لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ خود بڑی طاقتیں اپنے دلالوں کی مدد اور تحفظ مہیا کرکے بے گھر انسانوں کی تعداد اور ان کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔ امریکا، اسرائیل کی سرپرستی کرتا ہے۔
جس کی وجہ سے اسرائیل مشرق وسطیٰ میں بے لگام گھوڑے کی طرح دندناتا پھر رہا ہے، لاکھوں فلسطینی اپنے وطن سے بے وطن ہوکر ساری دنیا میں خوار ہو رہے ہیں۔ اس وقت فلسطینی خود اپنے علاقے غزہ کی پٹی میں فروکش ہیں جہاں خود اقوام متحدہ کی رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینی غزہ میں کس بے سرو سامانی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ نے خود اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ 20 لاکھ فلسطینیوں کی جانیں بچانے کے لیے 348 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔
مقبوضہ علاقوں میں 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو انسانی ہمدردی کے بحران کا سامنا ہے سب سے زیادہ خطرے کا سامنا کرنے والے افراد کی زندگیاں بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر 348 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں کے حالات انسانی رہائش کے لیے حد تک خراب ہیں۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے کے رابطہ کار ججی مک گولڈ رک نے کہا ہے کہ غزہ کی تقریباً نصف آبادی بے روزگار ہے اس تعداد میں 30 سال سے کم عمر ہر 10 میں سے 7 نوجوان ایسے ہیں جن کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے۔
ان میں چار لاکھ سے زیادہ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں جو کوئی ملازمت تلاش نہیں کرسکتے، حالات نے ان سے ان کے خواب چھین لیے ہیں۔ مک گولڈرک نے کہا کہ غزہ میں رہنے والے بیشتر لوگوں کے پاس کھانے کے لیے مناسب خوراک تک نہیں۔ وہاں کے تمام گھرانوں میں سے 60 فیصد کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے غزہ میں صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، ڈاکٹروں کی ایک بہت بڑی تعداد بے روزگاری کی وجہ سے بیرون ملک جا چکی ہے ادویات طبی سامان اور طبی آلات کی ترسیل کم ہوچکی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شدید بیماریوں میں مبتلا لوگ بھی اپنا علاج نہیں کراسکتے۔ اسرائیل مخالف مظاہروں کے دوران گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے ہزاروں لوگوں میں سے بہت سوں کو اپنے اعضا کاٹے جانے کا خوف لاحق ہے۔
کیونکہ اعضا کو کٹنے سے بچانے کے لیے جن ادویات، طبی آلات اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے وہ دستیاب نہیں۔ یہ ہیں وہ فلسطینی جو غزہ میں ایک عذاب ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ اس تناظر میں آپ ان تارکین وطن کی مشکلات کا اندازہ کرسکتے ہیں جو شام سے ترکی جانے کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں ان حقائق کی روشنی میں ان 80 ہزار شامیوں کے مستقبل پر نظر ڈالیں جو ترکی وغیرہ جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کے کرتا دھرتاؤں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔