ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے جانے سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اسرائیل کی طرف سے کی گئی ہر بات کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اسرائیل کی ہر بات سچ نہیں ہوتی اور نہ اسرائیل کو عالمی ادارے میں اتنی اہمیت دی جانی چاہیے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک صدر نے کہا کہ دنیا صرف پانچ ملکوں کا نام نہیں ہے، انسانیت پورے کرہ ارض پر پھیلی ہوئی ہے لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سلامتی کونسل میں صرف 5 ملکوں کی بات مانی جاتی ہے جنھیں ویٹو کی طاقت حاصل ہے۔
یہ بات بڑے افسوس کی ہے کہ سلامتی کونسل نے اپنے قیام 1948 کے بعد سے اب تک کوئی بڑا اور دیرینہ مسئلہ حل نہیں کیا، اسرائیل کی وجہ سے۔ کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات برسوں سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہیں۔ مگر ان کے حل کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ ترکی کے صدر نے خبردار کیا امریکا اس ماہ شمال مشرقی شام میں محفوظ علاقہ قائم نہیں کرتا تو وہ یکطرفہ اقدام کر سکتا ہے۔
ترک صدر نے درست طور پر کہا ہے کہ دنیا صرف پانچ ملکوں کی ملکیت نہیں۔ ترک صدرکی یہ بات درست ہے کہ ویٹو پاور کی وجہ سے دنیا 5 ملکوں کی ملکیت نظر آتی ہے لیکن ترک صدر یہ بات صرف اقوام متحدہ کے حوالے سے کہہ رہے ہیں۔ اصل میں ویٹو پاورکی وجہ پانچ ملکوں کی برتری ہو گئی ہے اس لیے یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا صرف پانچ ملکوں کے کنٹرول میں ہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے بلکہ سامراجی ملکوں کا ایک گروپ ہے جو دنیا پر کنٹرول کر رہا ہے۔ اصل میں دنیا بل گیٹس اور ان جیسے کھرب پتیوں کے قبضے میں ہے اور دنیا کے اصل مالک یہی چند سو کھرب پتی ہیں۔
ترک صدر اسرائیل کی بالادستی کے خلاف ہیں۔ یہ بات درست ہے لیکن اسرائیل تو امریکا کا ایک ایجنٹ ہے وہ بین الاقوامی مسائل میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا۔ اسے وہی کچھ کرنا ہوتا ہے جو امریکا چاہتا ہے۔ اگر اس کنڈلی کو دنیا کے مفادات کے مطابق بنانا ہے تو اس پورے سسٹم کو بدلنا ہو گا۔ سب سے پہلے اقوام متحدہ کو اس بات کا پابند بنانا ہو گا کہ وہ دس سال سے زیادہ پرانے تمام عالمی ایشوزکو ایک معینہ مدت میں حل کرے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے صرف پانچ ملکوں کی اقوام متحدہ پر برتری کی وجہ سے عشروں سے حل طلب نہیں ہیں بلکہ بڑے ملکوں خصوصاً بڑے مغربی ملکوں کی سیاست کی وجہ 72-71 سال سے پینڈنگ میں پڑے ہوئے ہیں۔
مسئلہ کشمیر 71 سال سے ایک خصوصی حیثیت کے ساتھ قائم تھا، اس خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ بنانے سے جو مشکلات پیدا ہو گئی ہیں خاص طور پر دونوں ملکوں کے عوام میں جو خلفشار پیدا ہوا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سخت کشیدگی پھیل گئی ہے اور اس حوالے سے سب سے بڑا نقصان دونوں ملکوں کے عوام میں مذہبی انتہا پسندی کا پیدا ہونا ہے۔ جو آنے والی نسلوں کے لیے تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
مسئلہ صرف اقوام متحدہ میں چند ملکوں کی برتری کا نہیں بلکہ دنیا پر اقتصادی قبضے کا ہے۔ آج پسماندہ ملکوں کے اربوں عوام بد ترین اقتصادی بدحالی کا شکار ہیں اور یہ اقتصادی بدحالی صرف پانچ ملکوں کی اقوام متحدہ پر برتری کی وجہ نہیں ہے بلکہ اس اقتصادی نظام کی وجہ ہے جو ساری دنیا پر ایک بلا کی طرح چھایا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ دوسری عالمی جنگ کے بعد وجود میں آئی اور بدقسمتی سے اس کا ڈھانچہ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ یہ ادارہ دنیا کا نمایندہ نہیں رہا۔ بلاشبہ یہ سب ادارے جمہوری ہیں لیکن ان جمہوری اداروں میں بھی وہی خامیاں ہیں جو ہمارے سیاسی اداروں میں موجود ہیں۔ سلامتی کونسل کسی بھی طرح جنرل اسمبلی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس 72 سالہ بوڑھی اور سٹھیا گئی اقوام متحدہ کی جگہ ایک جوان اور نئی اقوام متحدہ تشکیل دی جائے۔
جس میں طاقت کا توازن ایشیائی اور افریقی ملکوں کے ہاتھوں میں ہو۔ سلامتی کونسل کو صرف شو بوائے کا نام دے سکتے ہیں وہ سلامتی کونسل جس میں 72 سال سے زیادہ پرانے مسئلے اپنے حل کے انتظار میں سڑ رہے ہیں کیا ایسے ادارے کی کوئی افادیت ہو سکتی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کو چلانے والے بے ایمان ہیں وہ دنیا کے ملکوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں توازن ہے نہ غیر جانبداری جب تک انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں توازن اور غیر جانبداری نہ ہو وہ انصاف کر ہی نہیں سکتے۔ اسرائیل کو لے لیں اس کے خلاف اقوام متحدہ میں کئی قراردادیں پاس ہوئیں لیکن ان قراردادوں کو اسرائیل ٹھوکر سے اڑا دیتا ہے۔ جب انصاف کرنے والے ادارے کی وقعت یہ ہو تو اس کی افادیت کیا ہو سکتی ہے۔ کشمیر میں رائے شماری کے لیے 71 سال سے اب تک کی قراردادیں پاس ہوئیں لیکن ان کی حیثیت ردی کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔
اقوام متحدہ روز اول سے بڑی طاقتوں کی رکھیل کی طرح کام کر رہی ہے ایسے ادارے سے انصاف کی امید حماقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اصل میں اقوام متحدہ ایک ڈبیٹ کا فورم بن گئی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی اس وقت تک کوئی افادیت نہیں ہو سکتی جب تک اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی کوئی موثر مشنری نہ ہو۔
آج کشمیر میں لگ بھگ دو ماہ سے کرفیو نافذ ہے اور کشمیری عوام کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے آئے دن کشمیر میں کشمیری عوام کا قتل ہوتا رہتا ہے جو ادارہ کسی ملک میں عوام کا قتل عام نہ رکوا سکے اس کا وجود مہذب معاشروں کے لیے باعث شرم ہے۔ بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس سے دنیا کے بڑے ملکوں کے مفادات وابستہ ہیں اس لیے وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی جتنی چاہے خلاف ورزی کر سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے تحت کئی ادارے کام کر رہے ہیں جن میں انصاف کا ادارہ بھی شامل ہے لیکن اس ادارہ انصاف کے اختیار میں جب انصاف کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو اس کی حیثیت ایک فالتو ادارے سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ اگر اس ادارے کو بامقصد بنانا ہو تو جیسا کہ ہم نے تجویز کیا ہے اس ادارے میں عشروں سے حل طلب مسائل کو ایک مقررہ مدت میں حل کرنے کا پابند کیا جائے ورنہ مزید 100 سال تک یہ ادارہ ڈیڈ باڈی بنا رہے گا۔