Thursday, 14 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Asal Ghaddar

Asal Ghaddar

آج کل میڈیا غداری، سزائے موت اور ڈی چوک سے بھرا ہوا ہے چونکہ اس غداری کا تعلق ایک فرد اور حکومت سے ہے لہٰذا ہم اس جھنجھٹ میں نہیں پڑیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس غداری کا تعلق براہ راست عوام سے نہیں، لہٰذا یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ہم چونکہ عوام کی بات کرتے ہیں اور عوامی مفادات کی بات کرتے ہیں لہٰذا آج کا کالم اسی تناظر میں لکھا جا رہا ہے۔ پاکستان 22کروڑ عوام کا ایک بڑا ملک ہے اور "خوش قسمتی" سے ہمارے ملک میں جمہوریت کا دور دورہ ہے اور جمہوریت کا اصل مطلب عوامی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس تناظر میں جب ہم ہماری جمہوریت کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔

جمہوریت کا تصور کسی نے بھی دیا ہو، جمہوریت کا مطلب عوام کی خدمت، عوامی مسائل کا حل اور عوام کے معیار زندگی میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ جب ہم اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت عوامی جمہوریت نہیں اشرافیائی جمہوریت ہے یعنی بالادست طبقات اس جمہوریت کے مالک ہیں اور عوام صرف تقریروں اور بیانوں میں نظر آتے ہیں۔ اس جمہوریت کے تقدس کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور جمہوریت کو بچانے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے عہد کیے جاتے ہیں۔ لیکن عملاً اس جمہوریت میں عوام سے قربانیاں ہی لی جاتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم ہماری جمہوریت کو عوام کی قربان گاہ کہیں تو زیادہ مبالغہ نہ ہو گا۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بار بار فوجی حکومتیں بھی آتی رہیں، فوجی حکومتوں کو خواص پسند نہیں کرتے عوام اس وقت پسند کرتے ہیں جب انھیں کچھ ریلیف مل رہا ہو۔ چونکہ بعض جمہوریت کے بے قدروں کی طرف سے ہماری جمہوریت کو لوٹ مار کا نظام کہا جاتا ہے اور اس حوالے سے سابقہ حکومتوں کو الزام دیا جاتا ہے کہ ان کا سارا وقت لوٹ مار میں ہی گزرا ہے، اس حوالے سے میڈیا میں بڑی تفصیل سے خبریں آتی رہی ہیں اور عوام کو اس حوالے سے جمہوریت سے بڑی محبت ہو گئی ہے اور وہ جمہوری سیاستدانوں کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب رہی، جس کے سربراہ عمران خان ہیں۔ عمران خان کا تعلق روایتی اشرافیہ سے نہیں بلکہ مڈل کلاس سے ہے۔ 72سال کی تاریخ میں پہلی بار ایک حقیقی مڈل کلاس جماعت برسر اقتدار آئی ہے۔ اس "سانحے" سے اشرافیہ اس قدر مشتعل ہے کہ عمران خان کی مستقل تضحیک کرتی رہتی ہے۔ عمران حکومت کو گرانے کے لیے بار بار عوام سے رجوع کیا گیا لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے۔

عوام کے اس رویے سے ہماری جمہوری اشرافیہ بہت مایوس ہے اور علاج وغیرہ کے بہانے لندن امریکا وغیرہ میں تفریح کر رہی ہے۔ ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف دل کی بہت ساری بیماریوں میں مبتلا ہیں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ 1999ء میں ایک فوجی جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ نواز شریف اور ان کے ہم نوا پرویز مشرف سے سخت ناراض ہیں۔ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 یعنی بغاوت کے الزام میں عرصہ دراز سے کیس رجسٹر ہے لیکن مشرف کسی نہ کسی طرح گرفتاری سے بچتے رہے لیکن کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، آج کل اسپتال میں ہیں۔

محترم عدلیہ نے مشرف کو سزائے موت سنا دی ہے اور یہ دلچسپ حکم بھی دیا ہے کہ اگر پرویز مشرف گرفتاری سے پہلے انتقال کر جائے تو اس کی لاش کو ڈی چوک پر تین دن لٹکایا جائے۔ اس آرڈر کی ملک کے اندر اور دنیا بھر میں بڑی دھوم مچی ہوئی ہے کیونکہ یہ آرڈر جمہوری تاریخ میں ایک اچھوتی مثال ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس آرڈر پر عملدرآمد ہو یا نہ ہو حکومتوں کا تختہ الٹنے والے بہت الرٹ ہو جائیں گے اور تختے الٹنے کی حماقت سے توبہ کر لیں گے۔

جمہوریت کسی پاکستانی یا مسلمان کی ایجاد نہیں ہے کہ ہمیں راس آئے جن قوموں نے جمہوریت ایجاد کی وہ اسے لشٹم پشٹم چلا رہے ہیں لیکن پسماندہ ملک کے عوام اس جمہوریت سے سخت پریشان ہیں مغربی ملکوں میں جمہوریت کی گاڑی کسی نہ کسی طرح چل رہی ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں چونکہ جمہوریت ہے ہی نہیں اشرافیائی مفاد کی بات ہے لہٰذا یہ ملک جمہوریت کے فوائد سے محروم ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان جمہوریت کے حوالے سے بونگے ہی ثابت ہو رہے ہیں۔

سیاستدانوں کی جمہوری حکومتیں اور فوجی جنرلوں کی آمرانہ حکومتوں میں بڑا فرق ہے۔ سیاستدانوں کی حکومتیں عوامی ہوتی ہیں اور فوجی جنرلوں کی حکومتیں آمرانہ ہوتی ہیں۔ سیاستدانوں کی طاقت عوام ہوتے ہیں اور فوجی حکومتوں کی طاقت طاقت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ذرا ابہام ہے کہ سیاستدانوں کی حکومتیں عوام کے لیے بہتر ہیں یا فوجی حکومتوں میں عوام زیادہ خوش رہتے ہیں۔ تازہ مثال نواز حکومت ہے۔ جمہوری حکومتوں کی کارکردگی اور عوام کی حمایت، فوجی حکومتوں کی کارکردگی اور عوام کی حمایت۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مشرف حکومت اور نواز حکومت کی کارکردگی کا کسی غیر جانبدار کمیٹی سے جائزہ لیا جائے دودھ اور پانی کا اندازہ ہو جائے گا۔