Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ashraf Ul Makhluqat

Ashraf Ul Makhluqat

انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے بڑی اچھی بات ہے لیکن کیا انسان واقعی اشرف ہے؟

آج دنیا کے کسی حصے پر نظر ڈالیں گھرکی لڑائیوں سے لے کر دنیا تک ہر طرف لڑائیوں، جنگوں، نفرتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، جس میں انسان انفرادی اور اجتماعی موت کا شکار ہو رہا ہے انسانوں کے درمیان نفرتیں عداوتیں دشمنیاں خون خرابہ، کیا یہ سارے عوامل انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی علامات ہیں؟ اس حوالے سے ہم نے انسان کے ایک منفی پہلو کو اجاگر کیا لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ آج سے ڈیڑھ دو ہزار سال پہلے دنیا کس قدر پسماندہ اور جہل کا نمونہ تھی۔

دنیا کے حکمرانوں کا سب سے بڑا مشغلہ جنگیں تھا ہر طاقتور ملک کمزور ملک پر قبضہ کرلیتا اور اسے اپنی قلم رو میں شامل کرلیتا۔ نہ کوئی اقوام متحدہ تھی نہ کوئی سلامتی کونسل۔ جس کا پلہ بھاری ہوتا وہ اقتدارکا مالک بن جاتا تھا۔ یہ طاقت کی برتری کا اصول تھا۔ کیا انسان اپنے اس رویے سے اپنے آپ کو اشرف المخلوقات ثابت کرسکتا تھا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کے علاوہ دنیا کی پوری مخلوق بے عقل اور بے زبان ہے اور انسان انھی دو خوبیوں کی وجہ سے اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہے لیکن اپنے عمل سے وہ خود کو اشرف المخلوقات کے بجائے ارض المخلوقات ثابت کر رہا ہے، اگر دنیا کے عوام واقعی اشرف المخلوقات ہوتے تو دنیا جنت بن جاتی۔

ہٹلر ایک جرمن تھا، اس کے سر میں یہ سمایا کہ وہ ساری دنیا کو فتح کرسکتا ہے۔ ہٹلرکے ذہنی فتور نے لاکھوں انسانوں کی یا تو زندگیاں چھین لیں یا ان سے ان کی زندگی کا اثاثہ چھین کر دنیا میں دربدر ہونے کے لیے چھوڑ دیا۔ کیا اس قسم کے انسان کو افضل المخلوقات کہا جاسکتا ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ عقل اور زبان دو ایسی چیزیں ہیں جو دنیا کی پوری مخلوق میں کسی کو حاصل نہیں اور اگر ان دو چیزوں کی بدولت انسان اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے تو یہ اس کے لیے بڑا اعزاز ہوگا۔ دنیا کی عمر کے بارے میں اندازہ نہیں، دنیا سے مراد کرہ ارض کے وجود میں آنے سے قبل سیارہ زمین خلا کی گردش کرتا ایک بے جان سیارہ تھا اور زمین ایک بے آب وگیاہ اپنے مدار پر گردش کرتا ستارہ یا سیارہ جس میں سوائے سناٹوں کے راج کے کچھ نہ تھا۔ جو عناصر وجود میں آئے تھے وہ اپنے محور پر گھوم رہے تھے۔ ان کو دیکھنے والا ان کو انجوائے کرنے والا کوئی نہ تھا۔

پھرکرہ ارض پر انسان وجود میں آیا، انسان کے وجود میں آنے کی ہمارے پاس کوئی تاریخ نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ ابتدائی انسان درختوں پر یا غاروں میں رہتا تھا، جنگلی پھل، درختوں کی جڑیں اور پتے اس کی غذا تھی۔ اس نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے شکارکرنا سیکھا، یہ انسانی ترقی کا پہلا قدم کہلا سکتا ہے پھر تو انسان نے شکار کرنے اور گوشت کے استعمال کی طرف آیا یہاں سے اس کی کایا پلٹ گئی وہ درختوں سے نیچے اور غاروں سے باہر آیا یہ اس کی پہلی انگڑائی تھی۔

اس کے بعد ترقی کی شاہراہ پر وہ تیزی سے قدم بڑھاتا چلا گیا۔ ماضی کا سینہ چیر کر اس نے یہ دریافت کیا کہ یہ جو ہر روز سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ اس پریکٹس یا سفر کو دنیا یہ سمجھتی تھی کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے اور دن بھر کی گردش کے بعد مغرب میں غروب ہو جاتا ہے یہی اس کا دن بھر کا کام ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ مفروضہ بھی گھڑا گیا کہ سورج اور چاند کو اس لیے پیدا کیا گیا کہ وہ دنیا میں رہنے والے انسانوں کو روشنی فراہم کریں۔ سورج اور چاند گرہن کے بارے میں یہ مانا جاتا تھا کہ انھیں سانپ نگلتا ہے اور پھر اگل دیتا ہے۔

یوں چاند اور سورج گرہن کی تشریح کی جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ یہ مفروضہ بھی حقائق کی روشنی میں گم ہوتا چلا گیا، لیکن اس مایوس کن حقیقت سے اب بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ آج بھی نہ صرف دیہی علاقوں کے بلکہ شہری علاقوں کے عوام کی ایک بڑی تعداد آج کی زندہ حقیقتوں کو ماننے کے بجائے ماضی کے مفروضوں پر یقین رکھتی ہے۔

آج بھی بہت سارے حقائق ماضی کے عقائد میں چھپے ہوئے ہیں اور یہ عقائد اس قدر گہرے ہیں کہ اس کے خلاف زبان کھولنے والوں کی زبان کاٹ لی جاتی ہے لیکن ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ حقائق اپنے آپ جلد یا بدیر منوا کر رہتے ہیں۔ بعض لوگ ان حقائق کو انسان کی باغیانہ روش سمجھتے ہیں لیکن یہ نہ کوئی بغاوت ہے نہ سرکشی بلکہ حقائق کے علم کی خواہش کا مقصد ان حقائق کی روشنی میں زمین یا کرہ ارض پر جدید حقائق کی روشنی میں انسانی زندگی کی تشکیل نو کے علاوہ کچھ نہیں۔

مثلاً عقائدی تضادات ہیں ان کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی خواہش کا مقصد مختلف عقائد رکھنے والوں کو اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے اس طرح قریب لانا ہے کہ نفرتوں کی جگہ محبت کی آبیاری ہو سکے اجنبیت کی جگہ اپنایت کا کلچر فروغ پاسکے اور جنگوں کے بجائے امن کو فروغ حاصل ہوسکے۔

ان ضرورتوں کو پورا کرنا خدا کی مرضی پر عمل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے لیے ان حقائق کو ان کے تناظر میں انسان اور انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہے اگرچہ یہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن ہر اچھا اور سچا کام ابتدا میں مشکل ہی نہیں بلکہ خطرناک نظر آتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان تبدیلیوں کو انسانی ذہن قبول کرتا چلا جاتا ہے اور کرہ ارض پر انسانی زندگی آسان ہی نہیں خوشگوار ہوتی چلی جاتی ہے۔

آج دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو دنیا جہنم نظر آتی ہے۔ ایران اسرائیل تنازع، کشمیر بھارت تنازع، اسرائیل اور فلسطین تنازع، روس اور امریکا تنازع یہ سارے تنازعات اس لیے پیدا ہوئے ہیں اور پون صدی سے جاری ہیں اس کی دوسری وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان تنازعات کا ان کے درست تناظر میں جائزہ نہیں لیا گیا۔

مسئلہ کشمیر 72 سالوں سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک خطرناک پس منظر موجود ہے پاکستان کی حکومت نے ایک بار پھر بھارت کو بامقصد مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ آج بھارت اس پیشکش کو اہمیت نہیں دے رہاہے لیکن مستقبل کا انسان بھارت سے اس حماقت کا جواب طلب کرے گا اور برصغیر کے عوام اسی طرح شرمسار ہوں گے جس طرح آج بھارت کی ابتدائی قیادت کے فیصلوں سے شرمسار ہیں بشرط یہ کہ وہ اس مسئلے کو اس کے حقیقت پسندانہ تناظر میں دیکھیں۔