لیجیے! سندھ بینک کے صدر سمیت 3 عہدیداروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ایک ارب 80کروڑکا قرضہ دینے کا الزام ہے۔ پچھلے دس ماہ سے جب سے نئی حکومت اقتدار میں آئی ہے، ملک میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ مسئلہ صرف کسی ایک کیس کا نہیں ہے بلکہ اس پورے سسٹم کا ہے جو کرپشن کو جنم دیتا ہے۔ بلاشبہ عمران حکومت اس حوالے سے بڑے جرأت مندانہ اقدامات کر رہی ہے اور پکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ جاری بھی رہے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان اقدامات سے کرپشن رک جائے گی؟
اس سوال کا جواب ہمیں اس نظام میں ڈھونڈنا پڑے گا جسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں، چونکہ دنیا کا کوئی ملک سرمایہ دارانہ نظام کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا لہٰذا اس نظام کے اسیروں کو پکڑ کر اور کرپشن کی رقم برآمد کرکے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مارا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام ہر ملک کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے اور قانون اور انصاف اسی نظام کا حصہ ہیں۔ دنیا میں کرپشن کے خلاف ہر ملک میں کارروائیاں جاری رہتی ہیں لیکن اتنا ہی وہ پھولے گا جتنا اسے دباؤ گے والا معاملہ ہے۔
کیا کرپشن کے خلاف اقدامات کرنے والے اتنے ہی سادہ لوح ہیں کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ کرپشن اور سرمایہ داری ایک ہی نظام کے دو حصے ہیں۔ دنیا میں بلاشبہ ایسے بہت سارے لوگ ہوں گے جو کرپشن کی گہرائیوں اور پھیلاؤ کو جانتے ہوں گے لیکن وہ سب بے بس ہیں کیونکہ کرپشن کی جڑیں ایک ایسے نظام میں گڑھی ہوئی ہیں جسے اس نظام کے سرپرست اس نظام کو دنیا کی ضرورت بلکہ لازمی ضرورت سمجھتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں دو شخص ایسے گزرے ہیں جنھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی پروڈکٹ کرپشن کے خلاف ڈنڈا اٹھانے کے بجائے اس نظام کی ماہیت پر مدتوں غور کیا اور اس کے خلاف ڈنڈا اٹھانے کے بجائے اس کا ایک بہتر متبادل پیش کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس متبادل سے دنیا میں امید کی ایک لہر دوڑ گئی کہ شاید اب اس نظام سے دنیا کے عوام کی جان چھوٹ جائے لیکن اس نظام کے استحکام کا عالم یہ ہے کہ یہ نظام اربوں انسانوں کی جان کو اس طرح اٹک گیا ہے کہ کوئی متبادل کارگر ثابت نہیں ہو پاتا۔ اس نظام نے دنیا کو اچھی طرح یہ باورکرا دیا ہے کہ ہر مرض کی دوا دولت ہے اور عملاً ہے بھی ایسا ہی، اس نفسیات نے دنیا میں رہنے والے ہر شخص کو خواہ وہ امیر ہو یا غریب منی ریس میں اس طرح لگا دیا ہے کہ ہر زندہ شخص کی اولین ترجیح حصول دولت بن گئی ہے اور یہ ترجیح دنیا کے تقریباً ہر شخص کی مجبوری بن گئی ہے کہ ایک شخص کاروبار کر رہا ہے، اس کی اولین ترجیح کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت اپنی حیثیت کے مطابق حاصل کرنا ہے اس منی ریس ہی کے کارنامے آج ہم کرپشن اعلیٰ سطح پر دیکھ رہے ہیں۔
اس ظالمانہ نظام نے انسانوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے ایک امیر دوسرا غریب۔ تعداد کے حساب سے یہ دونوں طبقے 98/2 بنتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو فیصد اشرافیہ ملک کی 80 فیصد دے زیادہ دولت پر قابض ہے اور 98 فیصد اکثریت کی محنت کی کمائی پر دو فیصد اشرافیہ قبضہ جمائے بیٹھی ہے اب لاکھ پکڑ دھکڑ کریں لاکھ سختیاں کریں۔ اشرافیہ 98 فیصد کے ہاتھوں سے مچھلی کی طرح نکل جاتی ہے۔ اسی اشرافیہ کی ہوس نے 98 فیصد عوام کی خوشیاں چھین لی ہیں، ایک بات جو سمجھ سے بالاتر ہے یہ ہے کہ آخر 98 فیصد اکثریت دو فیصد اقلیت کے چنگل سے باہر کیوں نہیں نکلتی؟
اس سوال کے کئی جواب ہیں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں اتحاد نہیں ہے دوسری بڑی وجہ دولت کی دور ہے۔ اس دوڑ کی خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ کوئی یہ دیکھنے کے لیے تیار نہیں کہ کون اس دوڑ میں کچلا جا رہا ہے۔ سو روپے کمانے والا دو سو کے پیچھے بھاگ رہا ہے دو سو کمانے والا چار سو کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور اشرافیہ کی دوڑ سو دو سو کی دوڑ نہیں بلکہ اربوں کی دوڑ ہے۔
ملک بھر میں احتساب ہو رہا ہے اشرافیہ پکڑی جا رہی ہے، سزائیں دی جا رہی ہیں لیکن کرپشن وہ بھی اعلیٰ سطح کرپشن رکنے کا نام نہیں لیتی، اس لیے کہ اشرافیہ سمجھتی ہے کہ احتساب ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ اشرافیہ یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ عوام خاص طور پر پسماندہ ملکوں کے عوام کا متحد ہونا مشکل ہے۔ عوام کا اتحاد خواص کی موت ثابت ہوسکتا ہے اس لیے عوام کو بانٹ کے رکھنے کے سو طریقے اشرافیہ نے ڈھونڈ لیے ہیں۔ اور ان طریقوں پر وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے عمل کراتی ہے۔
موجودہ حکومت کے آنے سے عوام کی ایک بڑی اکثریت اشرافیہ کے پنجوں سے نکل گئی ہے کیونکہ اشرافیہ کے سرخیلوں کے خلاف میڈیا میں اتنا شدید پروپیگنڈا ہوچکا ہے کہ اب ملک کے ان پڑھ لوگ بھی اشرافیہ کے سورماؤں کے کارناموں سے واقف ہو رہے ہیں۔ عوام کی بھاری اکثریت کے اشرافیہ کے پنجوں سے نکل جانے کی وجہ اشرافیہ پریشان ہے اور اس نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا ہے کہ عوام میں زبان اور قومیت کے جذبات کو ہوا دے کر اب قوم پرستی کی سیاست پر اتر آئی ہے۔
اس سیاست سے قوم پرستی کے زہر سے متاثر عوام اشرافیہ کے گرد تو جمع ہو رہے ہیں لیکن نام نہاد جمہوریت کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے صرف قوم پرست کافی نہیں ہوسکتے۔ اب اس مسئلے کا اشرافیہ کیا حل نکالتی ہے اس کا انتظار کرنا پڑے گا۔