جمہوری ملکوں میں اپوزیشن کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اگر اپوزیشن نہ ہو تو ملک مادر پدر آزاد ایک ایسا بے ناتھی کا بیل ہو جاتی ہے جسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اگرچہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن بعض مسائل پر ہم خیال ہوتی ہیں لیکن بہرحال اپوزیشن کی ذمے داریاں بہت اہم اور با معنی ہوتی ہیں۔
ہمارے ملک کی جمہوری تاریخ میں اپوزیشن ایک عرصے تک ذمے دارانہ کردار ادا کرتی رہی اور ہمارے اپوزیشن میں بڑے نامور سیاستدان گزرے ہیں جن میں نوابزادہ نصر اللہ خان، ولی خان، مفتی محمود، عطا اللہ مینگل وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں، لیکن جیسے جیسے پرانے اور میچور سیاستدان سیاسی منظر سے ہٹتے گئے سیاست میں ابتری آتی گئی۔
بھٹو اور مجیب الرحمن ہماری سیاست کے وہ نام ہیں جن کے بغیر ہماری سیاسی تاریخ مکمل نہیں ہوتی، ان اکابرین کے دور میں بھی ہماری سیاست محترم رہی اور کرپشن کی وہ گندگی سیاست سے دور رہی۔ سیاست خواہ وہ پاکستانی ہو یا ہندوستانی ابھی احترام کی اس منزل میں داخل نہیں ہوئی، جہاں عوام قیادت کا احترام کرتے ہیں اور اعتبار بھی کرتے ہیں۔ جمہوریت سیاست دانوں پر عوام کے اعتماد کا نام ہے۔ جس جمہوریت میں عوام کا اعتماد سیاست دانوں سے اٹھ جاتا ہے وہ سیاست بے آبرو ہو جاتی ہے۔
اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر کام کرنے والی جمہوریت عوام کے اعتبار سے محروم ہوتی ہے لیکن اعلیٰ پائے کے سیاستدان اپنے کردار سے نہ صرف سیاست کو معتبر بنا دیتے ہیں بلکہ عوام کے نزدیک بھی ایسی سیاست قابل احترام ہوتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دو پسماندہ ملک ہیں یہاں جمہوریت میں نہ وہ میچوریٹی آئی ہے نہ ان ملکوں میں سیاست کرپشن سے پاک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدا ہی سے ہماری سیاست پر اشرافیہ کا قبضہ رہا ہے اور اشرافیہ کو سیاست کی آبرو مندی سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
ویسے تو ہمارے ملک میں چار فوجی حکومتیں آئیں لیکن اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی فوجی حکومت پرکرپشن کے الزامات نہیں لگے، اس کے برخلاف سول حکومتوں پر کرپشن کے اتنے الزامات لگتے رہے کہ کرپشن ان کی پہچان بن گئی۔ اس حوالے سے پچھلی دو حکومتیں اس قدر بد نام ہوئیں کہ "بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا" والی کیفیت پیدا ہو گئی اور ہماری جمہوریت کرپشن میں ڈوب گئی، جمہوریت کا دوسرا نام کرپشن بن گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن اور سرمایہ دارانہ نظام لازم و ملزوم ہیں لیکن ہمارے ملک میں ایک اور فیکٹر بھی کرپشن کا بڑا سبب بنا ہوا ہے اور وہ فیکٹر ہے اشرافیہ کی سیاست پر بالادستی۔ ہمارے ملک کی ایک "خوبی" یہ رہی ہے کہ حکومت خواہ جمہوری رہی ہو یا فوجی، اشرافیہ ہر حکومت کا لازمی حصہ بنی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اشرافیہ بالادست طبقے کے طور پر پہچانی جانے لگی جمہوریت عوام کی بالادستی کا نام ہے لیکن غالباً پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں عوام کے بجائے ہمیشہ اشرافیہ بالادست رہی ہے۔
ویسے تو پسماندہ ملکوں میں کبھی وہ جمہوریت آئی ہی نہیں جو عوام کی بالادستی سے عبارت ہوتی ہے لیکن پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں سیاست اور اشرافیہ لازم و ملزوم بن گئے ہیں، جس ملک کی سیاست میں عوام کا حال ہریجن جیسا ہو اس ملک کی جمہوریت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
آج پاکستان کرپشن کے حوالے سے دنیا میں جس قدر بد نام ہے اسے بھی ہم اشرافیہ کی مہربانی ہی کہہ سکتے ہیں۔ اشرافیہ کی جڑیں اس ملک میں کتنی گہری ہیں، اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اشرافیہ کی بالادستی سے محروم رہا ہو۔ اس حوالے سے کرپشن کے الزام میں گرفتار اشرافیہ کو دیکھیں۔ جب جیل جاتے ہیں تو اے سی، بیڈ، ملازمین، باورچی علیحدہ کھانا وغیرہ۔ اس کروفر کے ساتھ جب اشرافیہ جیل جاتی ہے تو جیل کا نظام ہی بدل جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سہولتیں عام قیدیوں کو بھی میسر ہوتی ہیں؟
دنیا میں ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اشرافیہ کو یہ شاہانہ سہولتیں مہیا نہیں ہوتیں، پاکستان تو ایک پسماندہ ترین ملک ہے۔ اس پسماندہ ترین ملک میں شاہانہ مزاج اشرافیہ کا حال جیلوں میں اس قدر شاہانہ ہوتا ہے تو عام زندگی میں کیا ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ 72 سال کا عرصہ تبدیلیوں کے لیے بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصے میں زندگی میں بہت تبدیلیاں آئیں لیکن یہ تبدیلیاں صرف اشرافیائی زندگی میں خوب سے خوب تر کی شکل میں آئیں جب کہ عام آدمی کی زندگی بد سے بد تر ہوتی گئی۔
دکھ اس بات کا ہے کہ عوام کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلیوں کا خواب تو خواب ہی رہے گا البتہ اشرافیہ کا سفر خوب سے خوب تر کی طرف جاری ہے۔ اس کلچر کا خاتمہ کسی قانون کسی آرڈینیشن سے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے اشرافیائی کلچر کو ختم کرنا ہو گا اور سیاست اور اقتدار پر عوام کی بالادستی لانا ہو گی۔