دنیا نے سیکڑوں سالوں کی کوششوں کے بعد حکومت میں آنے کا ایک سسٹم بنا دیا جب کہ اس سے قبل حکومت کا مطلب طاقت ہوا کرتا تھا۔ شاہ، شہنشاہ، راجے، مہاراجوں کے چند خاندان تھے جنھیں حکومت کرنے کا پیدائشی حق دے دیا گیا تھا۔ وہ کسی شرط کے بغیر نسل در نسل حکمران بن جاتے تھے۔
خاندانی حکمرانی کا یہ کلچر صدیوں نہیں بلکہ ہزاروں سالوں پر مشتمل ہے۔ دنیا کا انسان صرف بادشاہوں کی اطاعت پر زندہ رہتا تھا اور اگرکسی نے اس جابرانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی یا آواز اٹھانے کی کوشش کی تو وہ قانوناً قابل گردن زدنی ٹھہرتا تھا۔ بدقسمتی سے مسلمان اس کلچرکے بہت بڑے حامی تھے۔
ایک ہزار سال تک اس کلچر کی پرورش اور حمایت کو مسلمانوں کا کارنامہ کہیں یا جبر۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان برصغیر پر ایک ہزار سال تک خاندانی حوالے سے بے فکری سے حکومت کرتے رہے۔ اس ظالمانہ اور غیر فطری حکمرانی کے بعد آخر کار انسان نے جمہوری کلچر کی طرف پیش قدمی کی اور حکومت بنانے کی طاقت کو عوام کے حوالے کیا۔
پاکستان کو قائم ہوئے اب بہتر سال ہو رہے ہیں لیکن اس ملک پر اب تک چند خاندان حکمران بنے ہوئے ہیں اور انھی چند خاندانوں کو حکمرانی کا حقدار بنا دیا گیا ہے۔ اس غیر جمہوری اور ظالمانہ نظام کو جمہوریت کا نام دے کر چند نااہل خاندانوں کو عوام کے سروں پر مسلط کردیا گیا ہے۔ وہ نسل در نسل حکمرانی کے حق دار بن بیٹھے ہیں۔
پاکستان میں یہ ظالمانہ اور غیر جمہوری اور خاندانی نظام کو جمہوری بنا کر عوام کے سروں پر مسلط کردیا گیا ہے اور عوام نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو محکوم اور ایلیٹ کے چند خاندانوں کو حاکم سمجھنے لگے ہیں۔ یہ کلچر اتنا مضبوط ہوگیا ہے یا اس کلچر کو اتنا مضبوط بنا دیا گیا ہے کہ عوام نفسیاتی طور پر ان چند خاندانوں کے مطیع اور فرمانبردار بنا لیے گئے ہیں، عوام کو ایلیٹ نے اپنی پراپرٹی بنا لیا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی بعض مذہبی جماعتوں نے اپنے ماننے والوں کو مسلح طاقت میں بدل کر حکومتوں کو بلیک میل کرنے کا دھندا بنا لیا ہے۔ اس سارے غیر جمہوری ہڑبونگ میں جمہوریت جانے کس کونے میں دبک کر بیٹھ گئی ہے، اب جمہوریت کا مطلب شخصیت پرستی بن گیا ہے۔
اس ایلیٹی حکمت عملی کی وجہ سے عوام اپنے جمہوری حق اور جمہوری کردار کو بھول بیٹھے ہیں۔ یہ دور حاضرکا المیہ ہے۔ ہمارے ملک میں گزشتہ ستر برس میں ماڈرن سلاطین نے اپنی بالادستی منوانے کے لیے خوشامدیوں اور موقعہ پرستوں کی ایک فوج بنا رکھی ہے جو وقت ضرورت زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتی ہے اور اپنے آقاؤں کو جمہوری لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سب سے پہلے اس سیاسی ناٹک کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جس نے جمہوریت کو اپنے پروں کے نیچے کرلیا ہے، اس کام کا آغاز تعلیم یافتہ ایلیٹ کرسکتی ہے اور کرنا چاہیے۔
کیونکہ یہ کھیل اس تواتر کے ساتھ کھیلا جارہا ہے کہ بے چارے علم اور شعور سے محروم عوام اس ناٹک ہی کو جمہوریت سمجھ کر اشرافیہ سے ہی تعلق رکھنے والے کسی بھی چہرے کو عوامی لیڈر شپ سمجھ کر اس کی پرستش کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک کھیل نہیں بلکہ اس کا براہ راست تعلق پاکستان کے جمہوری مستقبل سے ہے اگر یہ شاطرانہ کھیل یوں ہی چلتا رہا تو اگلے سوبرس تک بھی پاکستان میں نظام تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اشرافیہ اور ہر قسم کی بیوروکریسی نے رنگ، نسل، زبان اور مذہب کو استعمال کرکے عوام کو ایک دوسرے کا مخالف اور اجنبی بنا کر رکھ دیا ہے۔
اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کیونکہ ایلیٹ کلاس یعنی اشرافیہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی اقتدار کو مستحکم رکھنے کا اور کوئی فلسفہ نہیں ہے۔ وہ عوام کو رنگ، نسل، قومیت اور مسالک کے نام پر تقسیم کرکے ستر سال سے اقتدار پر موجود ہیں۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری تعلیم یافتہ مڈل کلاس اس پہلو کو نہ سمجھ پا رہی ہے نہ اس کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔ حکمران اشرافیہ اور اس کے مددگاروں نے عوام کی محنت کی کمائی اربوں روپوں کو اپنے طبقاتی مفادات پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ کی جاگیر سمجھ کر اس طرح لوٹا ہے کہ یہ لوٹی ہوئی عوام کی دولت کے سہارے عشروں تک عوام کو اپنے قابو میں رکھ سکتی ہے۔
معاشرتی تبدیلیوں میں تعلیم یافتہ طبقہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ اپنے کیرئر بنانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور خود کو اشرافیہ کا ہی ایک حصہ سمجھتا ہے۔ جب تک اس تعلیم یافتہ مڈل کلاس میں طبقاتی بیداری نہیں پیدا کی جاتی عوام کو موجودہ بوسیدہ نظام کے شکنجے سے نکالنا مشکل ہے۔۔
ملک میں ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والے ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں اور ان سے زیادہ کسان ہیں۔ اصل جمہوری طاقت یہ ہیں جب تک ان میں طبقاتی شعور نہیں پیدا ہوتا، یہ بدھو بنے رہیں گے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مڈل کلاس کی منظم پارٹیاں ہیں نہ مڈل کلاس کی باشعور اور دور اندیش قیادت ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام انگریزوں کی پروردہ اشرافیہ یاپھر پھر قیام پاکستان کے بعد جعلی کلمیز کے ذریعہ بڑی بڑی شہری اور دیہی جائیدادیں ہتھیا کر اشرافیہ کا حصہ بننے والوں کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں جب تک ان محنت کش طبقات کو اشرافیہ کی گرفت سے نہیں نکالا جاسکتا، ملک میں جمہوریت کے ثمرات حاصل نہیں ہوسکتے۔