اب تک جو حکمران برسر اقتدار رہے ہیں، ان میں سے کسی نے مستقبل کے حوالے سے کسی شعبے میں کوئی پلاننگ نہیں کی۔ ملک کی تاریخ کا یہ پہلا حکمران ہے جو مختلف شعبوں میں جامع منصوبہ بندی کر رہا ہے لیکن ہمارا میڈیا اس اہم اور بڑے کام کو عوام تک پہنچانے میں بخل سے کام لے رہا ہے۔
عمران خان 22 سال سے سیاست کے دشت کی سیاہی کر رہا ہے، جب کہ دوسری جانب بغیر کسی تجربے اور اسکل کے سیاست کی اے بی سی سے ناواقف اشرافیہ کی اولاد آج کل صف اول کے لیڈر بنے ہوئے ہیں اور ان کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ حکومت کو "گراؤ" اور اس کی جگہ پر قبضہ کرلو۔ اس مہم کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ میڈیا میں حکومت کی کارکردگی کو حاشیے میں رکھا جا رہا ہے آزاد میڈیا کی ترجیحات کیا ہیں۔ ایک صاف ستھری اشرافیہ کو برسر اقتدار لانا۔
اس حوالے سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ 11 جماعتی اتحاد میں کتنی صاف ستھری جماعتیں ہیں اول تو اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ کیا اقتدار کی منتظر اشرافیائی جماعتوں میں کوئی جماعت ایسی ہے جو کرپشن سے پاک ہو۔ آج کی دنیا جدت کی دنیا ہے جس کے پاس دولت ہے وہ اس ملک کا منتخب حکمران بن سکتا ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے، حال میں بھی ایسا ہو رہا ہے مستقبل میں بھی ایسا ہوگا۔
بددیانتی، بے ایمانی، کرپشن جیسی لعنتیں ہر ملک میں ہیں لیکن پاکستان اس حوالے سے سرفہرست کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کا یہ اعجاز ہے کہ اسے زندگی کے ہر شعبے کی بالواسطہ اور بلاواسطہ کھلی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے اس کا رویہ انتہائی جارحانہ ہو گیا ہے۔ کسی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے حکومت پر سخت تنقید سے حکمران قیادت کا پژل ہونا فطری ہے۔ آج تک قائم ہونے والی حکومتوں میں اشرافیہ کی بالادستی رہی ہے جو سر سے پاؤں تک کرپٹ رہی ہیں۔ پچھلے سالوں میں برسر اقتدار جماعتوں نے کھلی اربوں روپوں کی لوٹ مار کی کسی نے اسے روکا نہ اس کا نوٹس لیا۔
موجودہ حکومت اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے نااہلی کا مظاہرہ تو کر سکتی ہے لیکن عمران خان کا بڑے سے بڑا دشمن بھی حکومت پر کرپشن کا الزام نہیں لگا سکتا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اعلیٰ ترین حلقوں کی سخت تنقید کا نشانہ کیوں بنی ہوئی ہے؟ دراصل وزیراعظم عمران خان اشرافیائی حلقوں کا باسی نہیں ہے، اس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے، وہ سیلف میڈ انسان ہے، کرکٹ کے دوران اپنی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے بلاشبہ اس نے دولت حاصل کی لیکن اس دولت میں کرپشن کی دولت شامل نہ تھی۔ ہماری اشرافیہ کرپشن میں ملوث ہے لیکن کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ اسی وجہ سے وہ اقتدار سے باہر رہتے ہوئے بھی کرپشن کے مزے لوٹ رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو عوام کی طرف سے پسند کرنے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک ایمانداری دوسرا صاف گوئی۔ یہ پہلا وزیر اعظم ہے جس کے خلاف اشرافیہ کھل کر توہین آمیز تنقید کر رہی ہے اور یہ نیک کام اشرافیہ کھل کر کر رہی ہے۔ ہمارے اعلیٰ ادارے بھی اشرافیہ کی توہین آمیز تنقید سنتے ہیں کیا یہ قابل قبول ہے؟ اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اشرافیہ جو چاہتی ہے کرتی ہے کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ عمران خان جیسا بھی ہو وزیر اعظم ہے کیا میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں جس طرح کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اس کی مثال ساری دنیا میں نہیں مل سکتی اور یہ جرأت اشرافیہ میں اسی لیے پیدا ہوئی کہ میڈیا میں اس ٹولے کو بڑے باعزت لوگوں کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔
اس نظرانداز کردینے والے رویے کی وجہ سے میڈیا وزیر اعظم کے خلاف اور زیادہ نڈر ہو کر تنقید کر رہا ہے، اس کا سب سے بڑا مقصد حکومت کو عوام میں بدنام کرنا ہے، لیکن عوام رکشہ والوں، تانگہ والوں، مزدوروں کے اکاؤنٹس سے لاکھوں روپے نکلنے کو نہیں بھولے۔ اشرافیہ کے پاس غریبوں کی محنت سے جمع ہونے والا پیسہ کرپشن کے ذریعے حاصل کرکے ملک کے اندر اور باہرکے بینکوں میں رکھا گیا تھا کہ کسی طرح ان بھاری رقموں کو بچا لیا جائے یہ خبریں میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوتی رہیں لیکن کسی متعلقہ حلقے نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔
اپوزیشن ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہی ہے کہ ہم حکومت کو گرا کر رہیں گے۔ کیا حکومت کسی غریب کا کچا گھر ہے کہ جب چاہے گرا دیا جائے۔ حکومت ایک قانونی حکومت ہے اور اسے گرانے کے طریقے دستور پاکستان میں موجود ہیں۔ کیا اس قسم کی غیر دستوری دھمکیوں کا کسی متعلقہ ادارے نے کوئی نوٹس لیا۔ یہ ایسے سوالات ہیں عوام جس کا جواب چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا ملک ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے ایسے ملک میں اس قسم کے رویے کا کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔
اس ملک پر ابتدا سے اشرافیہ قابض ہے اور ملک کے عوام کی محنت کی کمائی کو لوٹ کر اربوں روپے جمع کر لیے ہیں جو قانونی اور دستوری حکومتوں کو کچی بستیوں کے کچے گھروں کی طرح گرانا چاہتے ہیں بلاشبہ حکومت ایک مڈل کلاسر حکومت ہے۔ سوال یہ ہے کہ مڈل کلاس سے حکمرانوں کا تعلق جرم ہے؟ حکومت کو بدنام کرنے کے لیے مہنگائی کو آسمان پر پہنچا دیا گیا۔ عمران خان ملک کا وزیر اعظم ہے، کیا کسی ملک کے وزیر اعظم کو اس قدر توہین آمیز طریقوں سے مخاطب کیا جاتا ہے؟ ملک کے دوسرے شعبوں میں ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹس ہوتے ہیں ان کا نام بھی عزت سے لیا جاتا ہے عمران اس ملک کے وزیر اعظم ہیں کیا انھیں ایسے طریقے سے مخاطب کرنا جمہوری ہے یا اشرافیائی جمہوری اخلاق ہے۔