ہر چینل پر سیاسی جماعتوں کے " قائدین" ہر روز مختلف پروگراموں کے مہمان ہوتے ہیں۔ ان تمام پروگراموں کا موضوع سیاست حاضرہ ہوتا ہے اور سیاست حاضرہ میں شرکا پروگرام عموماً اپنے مخالفین پر الزامات اور جوابی الزامات لگانے میں اپنا سارا وقت برباد کردیتے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا کی خوبی یہ ہے کہ وہ منٹوں میں ملک ہی نہیں، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جاتا ہے اور مہمانان گرامی کے خیالات سارے ملک تک چلے جاتے ہیں۔ بے چارے عوام ان آراء اور خیالات سے اس قدر تنگ اور بے زار ہوتے ہیں کہ کارٹون پروگرام یا ڈرامے دیکھ کر وقت گزارتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس لا حاصل گفتگو سے عوام کو کیوں پریشان کیا جاتا ہے۔
سیاستدان ٹی وی کی بہت بڑی ضرورت بن گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس درد سر سے عوام کو بچانے کا کوئی معقول طریقہ ہے؟ یقینا ہے چینل اپنا سارا وقت سیاستدانوں کو دے کر عوام کے ذہنوں کو مسموم کرنے کے بجائے ملک کے ان لوگوں کو جن میں دانشور، مفکر، ادیب، شاعر اور عالم شامل ہیں، ٹی وی چینلز کے مہمان کیوں نہیں بناتے اگر ٹی وی پر یہ حضرات آئیں گے تو کچھ کام کی باتیں کچھ سیکھنے سکھانے کی باتیں ہوسکتی ہیں۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ عوام میں شعور پیدا کرنے کا ہے خاص طور پر سیاسی شعور اور طبقاتی شعور پیدا کرنا ضروری ہے اور یہ کام اہل سیاست ہرگز نہیں کرسکتے کیونکہ یہ کام ان کے طبقاتی مفادات کے خلاف ہوتا ہے، یہ صورت حال قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستانی عوام کا مقدر بنی ہوئی ہے۔
عوام میں اگر سیاسی اور طبقاتی شعور آگیا تو سیاستدانوں کی سیاست کیا بنے گا۔ عوام میں شعور کی بیداری سے روکنے کے لیے اشرافیہ طرح طرح کے جتن کر رہی ہے۔ اس حوالے سے احتساب کو ظلم کا نام دے کر عوام میں اشرافیہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، دوسرا طریقہ یہ آزمایا جا رہا ہے کہ زبان اور قومیت کے نام پر عوام کو تقسیم کرکے ان کے شعورکو کند کیا جا رہا ہے۔
جب تک عوام میں سیاسی اور طبقاتی شعور پیدا نہ ہو، عوام کا حال مٹی کے مادھوؤں کا سا رہتا ہے۔ اشرافیہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ سیاسی اور طبقاتی شعور عوام کو اپنے طبقاتی دشمنوں کو پہچاننے میں بہت مدد دیتا ہے اس لیے اشرافیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ مختلف حوالوں سے عوام کو تقسیم رکھے۔
ٹی وی ایک ایسا واحد میڈیا ہے جو منٹوں میں ملک کے کونے کونے تک پہنچ جاتا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا سیاستدانوں کے منہ سے نکلا ہوا زہر عوام تک پہنچا رہا ہے۔ ملک میں سیکڑوں دانشور ہیں، سیکڑوں مفکر ہیں، سیکڑوں ادیب ہیں، سیکڑوں شاعر ہیں جو عوام میں بیداری پیدا کرکے انھیں طبقاتی استحصال کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار کرسکتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ میڈیا ان حکما کو چینلوں کا مہمان بناکر ان کی دانشورانہ باتوں سے عوام کو مستفید کرنے سے گریزاں ہے۔ اشرافیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ میڈیا ان کے کنٹرول میں رہے۔
ہمارے میڈیا کے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عام ورکرز ہمیشہ عوامی مسائل کو ہائی لائٹ کرنے میں مصروف رہتے ہیں لیکن اشرافیہ عوام کو کنفیوژ کرکے ان کے طبقاتی شعور کو کند کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ ترین ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں طبقاتی شعور ناپید ہے۔ عوام چونکہ سیاسی بازی گروں کے ہتھکنڈوں سے ناواقف ہوتے ہیں لہٰذا وہ آسانی سے ان کے ٹریپ میں آجاتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ جمہوریت خاندانی نہیں ہوتی اور ہمارے ملک میں جمہوریت کو خاندانی بنا دیا گیا ہے اور اشرافیہ کے شہزادوں اور شہزادیوں کو ہیرو بناکر عوام کو ان کا پرستار بنادیا گیا ہے۔ یہ کام اس ہوشیاری سے کیا جا رہا ہے کہ اشرافیہ کے شہزادے، شہزادیاں اب ہیرو بن گئے ہیں۔
اس سازش کو صرف ملک کے نڈر اور صاف گو دانشور، مفکر، ادیب، شاعر ہی ناکام بناسکتے ہیں۔ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ اشرافیہ کی نیچر کو اور طبقاتی جبلت کو جانتے ہوئے اینکرز سارا وقت ان لوگوں کو دے رہا ہے اور عوام دوست افراد کا مکمل بائیکاٹ کردیا گیا ہے۔ یہ اشرافیہ کی ایک بہت بڑی اور سوچی سمجھی سازش ہے جس کا جب تک ازالہ نہیں کیا جاتا، عوام سازشوں کے صحرا میں بھٹکتے رہیں گے۔
پاکستان کے عوام دوست اور دشمن کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ ٹی وی کے ٹاک شو پر چھائے ہوئے اشرافیائی محترمین ٹاک شوز کے ذریعے عوام میں نفوذ کرنے اور اپنی "فنکارانہ" گفتگو کو عوام کے ذہنوں میں انڈیلنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کا جلد سے جلد ازالہ نہ کیا گیا تو عوام عشروں تک اشرافیائی سحر میں گرفتار رہ سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں بائیں بازو کی کچھ بے اثر سیاسی جماعتیں ہیں جو اپنا وقت غیر ضروری مکالموں میں گزار رہے ہیں اگر وہ اشرافیہ کی سازشوں کو بے نقاب کریں تو یہ ایک مثبت کارکردگی ہوگی۔
میڈیا میں پرنٹ میڈیا کی ایک بہت بڑی اہمیت ہے، پرنٹ میڈیا میں ایسے تجزیہ کار موجود ہیں جو نہ صرف اشرافیہ کی سازشوں کو ناکام اور بے نقاب کرسکتے ہیں بلکہ انھیں طبقاتی استحصال کے طریقوں سے بھی آگاہ کرسکتے ہیں۔ ٹاک شوز کو پرنٹ میڈیا کی آزادی سے تعبیرکیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹاک شوز عوام کو کنفیوژ کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک ٹاک شوز میں دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، شاعروں کو نہیں لایا جاتا۔