Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Awam Ko Aage Aana Hoga

Awam Ko Aage Aana Hoga

ہماری سیاست اب اشتعال انگیزی میں آخری حدوں تک پہنچ چکی ہے، پہلے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی اسلام آباد میں ہونے والی پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا، پھر لاہور میں شہباز گل پر انڈے اور سیاہی پھینکی اور کیپٹن ریٹائرصفدر پر بھی کسی نے انڈے مارنے کی کوشش کی۔

اس قسم کی اشتعال انگیزی اور بدتمیزی اسی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ سیاست میں تشدد کی آمیزش ہورہی ہے۔ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں الیکشن ہارنے والی جماعت الیکشن جیتنے والی جماعت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیتی ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہورہا۔ پہلے پی ٹی آئی نے بطور اپوزیشن مسلسل مظاہروں کی سیاست کی اور اب اپوزیشن اتحاد اسی راستے پر ہے۔ ایسا لگتاہے کہ اب سیاسی جماعتیں پرامن جدوجہد کے راستے سے ہٹ کر تشدد کی سیاست کی راہ پر چل پڑی ہیں۔

ادھر مسلم لیگ (ن) کی قیادت احتساب کی زد میں ہے۔ میاں محمد نواز شریف لندن میں ہیں اور میاں شہباز شریف جیل میں سیاست کررہے ہیں۔ دونوں بھائیوں کے سیاسی منظرنامے سے براہ راست دوری کے بعد (ن) لیگ اتنی زیادہ متحرک نہیں رہی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رویہ دنیا کی کس جمہوریت میں ہے کہ اپوزیشن برسراقتدار حکومت کو چلنے نہ دے اگر سیاست کے اس کلچر کو بے لگام چھوڑ دیا گیا تو ملک میں جمہوریت کے بجائے انارکی پھیل جانے کا خطرہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پر چند سیاسی خاندان راج کر رہے ہیں اور ان کی سائیکی یہ بن گئی ہے کہ اقتدار ہماری میراث ہے جس پر کسی دوسرے کا کوئی حق نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام ملکی سیاست سے مکمل لاتعلق ہوگئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاست غنڈہ گردی میں بدل گئی ہے اور جمہوریت منہ چھپائے پھر رہی ہے۔

ادھر تحریک انصاف کی حکومت کا عالم یہ ہے کہ وہ حالات حاضرہ کی مہنگائی کے حوالے سے سنگینی کو دیکھ کر اس کا فوری حل تلاش کرنے کے بجائے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات میں مصروف ہے۔ اس سیاست کی وجہ سے عوام میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو عوام کو سڑکوں پر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس سنگین صورت حال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ (ن) لیگ تحریک انصاف کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دے اور حکمران پارٹی کا یہ فرض ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عوام کے مسائل خاص طور پر مہنگائی سے عوام کو نجات دلانے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کرے۔

مشکل یہ ہے کہ (ن) لیگ کی قیادت کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر حکومت کو ڈھائی سال مل جائیں تو اس کی پوری کوشش ہوگی کہ عوام کے اہم مسائل خاص طور پر مہنگائی پر قابو پائے۔ یہ ایسی صورتحال ہے کہ اس کے پس منظر میں موجودہ غیر یقینی صورتحال سے نجات کا کوئی راستہ ملتا نظر نہیں آ رہا ہے یہ صورتحال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ قومی مسائل اور قومی مستقبل کو نظرانداز کرکے اپنے ذاتی اور جماعتی مسائل کو اہمیت دی جا رہی ہے۔

اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں عوامی جمہوریت کو متعارف ہی نہیں کرایا گیا یا تو غیر عوامی حکومت رہی یا پھر وہی چند جو خاندان ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر اس پر قبضہ مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ عوام کو پانچ سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے کو جمہوریت کا نام دیا گیا اور ان میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے بجائے انھیں سیاسی حوالوں سے تقسیم کرکے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی رہی آج ملک جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے، اس کی تمام تر ذمے داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جب تک عوام کو آگے لا کر اقتدار کا پرانا سلسلہ ختم نہیں کیا جاتا ملک اسی طرح انتشار کا شکار رہے گا۔

ملک پر گزشتہ 70سال سے قابض اشرافیہ نے کبھی مزدور، کسان اور غریب طبقے کو اقتدار کے قریب آنے نہیں دیا اور اگر کبھی کسی نے کوشش بھی کی تو اس کے راستے میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں کہ اس نے اس بارے میں سوچنا ہی بند کر دیا۔ عام آدمی کو روٹی کپڑے، مکان اور روز گار کے مسائل میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ اس کا دھیان صرف اور صرف اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی طرف ہی لگا رہا، اس کا دھیان حکمران اشرافیہ کی کرپشن کی طرف گیا ہی نہیں۔ اسے صرف اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی ہی فکر رہی۔

اپوزیشن والے یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار ان کی جاگیر ہے وہ جب چاہیں جب تک چاہیں اقتدار پر قابض رہ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے الیکشن کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عوام میں جمہوری شعور کا فقدان ہے جب تک عوام پانچ سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے کو ہی جمہوریت سمجھتے رہیں گے صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں زرعی معیشت سے وابستہ عوام کی تعداد بھی مزدوروں کی تعداد سے کم نہیں۔ ڈھونگی جمہوریت کو ختم کرنے کے لیے مزدوروں کسانوں اور غریب عوام کو آگے آنا ہوگا اور سیاست اور اقتدار کو اشرافیہ کے قبضے سے آزاد کرانا ہوگا۔