ہماری وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے فرمایا ہے کہ عوام کو ٹیکس دینا ہوگا، ٹیکس کے بغیر ملک کیسے چلے گا؟
محترمہ کی بات سو فیصد درست ہے کہ ٹیکس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا نہیں بلکہ دنیا کا کوئی ملک بھی ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا لیکن ٹیکس لگانے والوں کو اس بات کا یقینی طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں سے آپ ٹیکس لینا چاہتے ہیں کیا وہ لوگ ٹیکس دینے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں؟ مثلاً مزدور طبقہ ہے جس کی تعداد ساڑھے چھ کروڑ ہے اور حکومت نے اس کی اجرتوں (ماہانہ) کا تعین کردیا ہے اور تعین کردہ اجرت ماہانہ 16 ہزار ہے۔
عام طور پر ایک مزدور خاندان کم ازکم آٹھ افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آٹھ افراد پر مشتمل ایک خاندان کا گزارا 16 ہزار میں ہوسکتا ہے جب کہ مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی ہے۔ کیا ہمارے وزیر مالیات یا گورنر اسٹیٹ بینک ایسا چارٹ بنا کر دیں گے کہ ایک آٹھ افراد پر مشتمل خاندان تعلیم، علاج سمیت 16 ہزار روپے میں گزارا کر لے؟ مزدوروں کے علاوہ ان غریب طبقات کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے جن کی آمدنی 16 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اس کے علاوہ ہاری کسان ہے جن کی تعداد دیہی آبادی کا 60 فیصد بتائی جاتی ہے۔ اس طبقے کی کوئی لگی بندھی اجرت نہیں عام طور پر انھیں فصلوں پر اناج دیا جاتا ہے، اس پر ہی ان کا گزر بسر ہوتا ہے۔
زرعی معیشت سے جڑی یہ آبادی وڈیروں اور جاگیرداروں کے زیر سایہ زندگی گزارتی ہے ہم تصور کرسکتے ہیں کہ ہاریوں کسانوں کی گزر بسر کیسے ہوتی ہوگی۔ مزدور کسان ہی نہیں لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس جنھیں ہم وائٹ کالر کہتے ہیں ان کی تنخواہیں بھی اتنی نہیں ہوتیں کہ وہ مطمئن اور خوشحال زندگی گزار سکیں بلکہ عملاً صورتحال یہ ہے کہ لوئر اور مڈل کلاس سب سے زیادہ بد تر زندگی گزار رہی ہے۔
حکومت جن لوگوں سے ٹیکس ڈنڈے کے زور پر لیتی ہے وہ یہی قلاش اور مفلس طبقات ہیں جو 60 روپے کلو آٹا خرید رہے ہیں حکومت کو ان بے کس طبقات کا ممنون ہونا چاہیے کہ یہ مجبور اور پسے ہوئے لوگ غیر معمولی صبر و برداشت کا مظاہرہ کر رہے ہیں جب کہ دنیا کے کئی ملکوں میں مہنگائی اورکرپشن کے خلاف پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں اور حکمران استعفے دے کر بھاگ رہے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی یا ملک کی دولت کے 80 فیصد حصے پر بالادست طبقات کرپشن کے ذریعے قبضہ کرلیتے ہیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ پچھلے دس برسوں سے ان دو حکومتوں نے مہنگائی کو روکنے کے لیے 24 ہزار ارب کا قرضہ لیا اس قرضے سے دو کام کیے گئے ایک لوٹ مار کی حد کی گئی دوسرے مہنگائی کو روک رکھا گیا۔ عام آدمی یہ تو جانتا ہے کہ ماضی کی دونوں حکومتوں کے دوران اتنی مہنگائی نہیں رہی جتنی آج ہے اور عوام بجا طور پر حکومت کو آسمان سے چھوتی ہوئی مہنگائی کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔
ہماری وزیر اطلاعات کا یہ فرمانا بالکل درست ہے کہ ملک ٹیکسوں کے بغیر نہیں چلتے لیکن ٹیکس دھڑا دھڑ غریب عوام پر لگائے جا رہے ہیں جو بھاری ٹیکس دینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ جن طبقات نے اربوں روپوں کی کرپشن کی وہ ملک سے باہر پہنچ کر عیش کر رہے ہیں اور کرپشن کا بوجھ "سر پر اٹھائے" ملک کے اندر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ میں مسمی ظہیر اختر بیدری ڈبل ایم اے عرصہ دراز سے بیمار ہوں لیکن علاج کی توفیق نہیں۔ ہمارا تعلق بھی سفید پوش طبقات سے ہے۔ ہماری انکم عموماً 17-16 ہزار ماہانہ ہے اور ہم اس آمدنی میں نوابوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اگر معاشرہ انصاف پر مبنی ہوتا تو یقینا ایک کالم نگار کو اس قسم کی بدترین زندگی گزارنے کی ضرورت یا مجبوری نہیں ہوتی۔ جب میرا بجلی کا بل 11-10 ہزار آتا ہے تو ہماری ہوا کھسک جاتی ہے ہم اپنی مالی حالت بتا کر سفید پوش مڈل کلاس کی بے عزتی کر رہے ہیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ حقائق وہ بھی اتنے تلخ حقائق جب تک عوام اور حکمرانوں کے سامنے نہیں آئیں گے اس کی اصلاح کی کوئی صورت سامنے نہیں آئے گی۔
ہماری حکومت کی یہ بات غلط نہیں کہ ٹیکس کے بغیر حکومت کیسے چل سکتی ہے لیکن سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے دور میں جن "مہاتماؤں" پر اربوں کی کرپشن کے الزامات لگے کیا وہ سب جھوٹ تھے؟ اگر جھوٹ تھے تو ہماری حکومت خصوصاً عمران خان کو ان "بے گناہوں " سے معافی مانگنی چاہیے۔
اگر یہ مہاتما دوشی ہیں تو ان سے سختی کے ساتھ کرپشن کے اربوں روپوں کے علاوہ "نیک کمائی کے اربوں " روپوں پر ٹیکس لگا کر ملک کو چلانے کی سبیل کریں اگر حکمران یہ لازمی اور ناگزیر قدم نہیں اٹھا سکتے تو انھیں حکومت چھوڑ کر حکومت ایسے لوگوں کے حوالے کرنی چاہیے جو حکومت چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہم نے اور ہم جیسے دوسرے قلم کاروں نے حکومت کی آنکھ بند کرکے اس لیے حمایت کی کہ عمران نے 72 سال سے اس ملک پر قابض بددیانت اشرافیہ سے عوام کو نجات دلائی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ غریب عوام پر ناقابل یقین مہنگائی کا بوجھ ڈال دے اور کہے کہ "ٹیکسوں کے بغیر حکومت کیسے چل سکتی ہے؟ "
عوام دنیا کے ان ملکوں کے حوالے سے اخباروں میں یہ خبریں روز پڑھ رہے ہیں جو مہنگائی اور کرپشن کے خلاف پرتشدد مظاہرے کر رہے ہیں اور جن ملکوں کے سربراہ اپنی نااہلیت کو تسلیم کرکے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو رہے ہیں۔