مولانا فضل الرحمن کا تازہ شاہکار آزادی مارچ پلس دھرنا ہے۔ دھرنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن آزادی مارچ والا مسئلہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اگست کا مہینہ ہوتا تو آزادی مارچ کی گنجائش نکال لی جاسکتی تھی، بہرحال مولانا کا کوئی کام چونکہ مصلحت سے خالی نہیں ہوتا لہٰذا ہم اس حوالے سے زیادہ فکرمندی یا تشویش کا اظہار نہیں کریں گے۔
مولانا ایک مستند عالم دین ہیں اور ایک مذہبی کم سیاسی جماعت کے امیر بھی ہیں۔ مولانا کی نرم خو طبیعت کا خاصہ ہے کہ وہ کسی نیک کام میں ہاتھ بٹانے بلکہ قیادت کرنے سے گریز نہیں کرتے، اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ مولانا عموماً برسر اقتدار جماعتوں سے دوستی رکھتے ہیں۔ حکمران جماعتوں سے دوستی کے باوجود مجال ہے کہ دل میں کوئی برا خیال آجائے۔
اصل میں مولانا ہمیشہ مصروف رہنا چاہتے ہیں اور مصروف رہنے کے لیے کوئی نہ کوئی مثبت یا منفی کام ضروری ہے، اس حوالے سے دلچسپی کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ وہ حق دوستی ادا کرنا چاہتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف سے ان کی بہت پرانی یاد اللہ ہے، وہ دوست ہی کیا جو برے وقت میں دوست کے کام نہ آئے۔ میاں محمد نواز شریف آج کل ایک بہت برے دور سے گزر رہے ہیں۔
ہمارے خیال میں شریف فیملی کا ان کی تاریخ میں اس سے برا دور نہیں گزرا۔ بڑے میاں صاحب بڑی پامردی سے اس برے دور کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ "اچھے وقت" کے تو سب ہی دوست ہوتے ہیں، برے وقت کا دوست سہی معنوں میں سچا دوست ہوتا ہے۔ اور یہ مولانا کا بڑا بلکہ بہت بڑا پن ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کا ایسے وقت میں ساتھ دے رہے ہیں جب سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے عمران خان سے ستارے نہیں ملتے۔ اصل میں عمران خان کی عادت ہے کہ وہ مولانا کا نام آتا ہے تو بے مزہ ہوجاتے ہیں اور بدمزگی میں عمران خان کے منہ سے کچھ نہ کچھ الٹی سیدھی باتیں نکل جاتی ہیں اور یہی رنجش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اصل میں عمران خان کا اقتدار میں آنا ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اسے ہم اتفاق نہیں کہہ سکتے بلکہ لگتا ہے کہ جو لوگ بھی عمران خان کو اقتدار میں لائے ہیں، وہ مولانا کو تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کل کا بچہ ہی کہلا سکتا ہے، مولانا ایک میچور انسان ہیں وہ مذہب پر جتنا عبور رکھتے ہیں اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ عبور سیاست پر رکھتے ہیں۔ یہ عمران خان کی بدقسمتی ہے کہ انھوں نے مولانا سے پنگا لیا ہے۔
عمران خان غالباً نہیں جانتے کہ مولوی اور مولانا صاحبان کی پکڑ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ عمران خان اب ملک کے وزیر اعظم ہیں اور مولانا حزب اختلاف کے ایک ذمے دار اور مضبوط نمایندے ہیں۔ عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کا مقابلہ کسی للو پنجو سے نہیں بلکہ ایک ایسے مولانا صاحب سے ہے جو اپنے مخالفین کو دھول چٹوائے بغیر نہیں چھوڑتے۔ میاں محمد نواز شریف دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے بڑے دشمن ہوتے ہیں، عمران خان لاکھ وزیر اعظم سہی لیکن سیاست میں تو وہ جونیئر ہی ہیں۔ اور اخلاقاً بھی سینئر کے سامنے جونیئرز کو حد و ادب کا خیال رکھنا چاہیے۔
سیاست بنیادی طور پر دشمنیوں کا کھیل ہے۔ عمران خان اور مولانا صاحب کے درمیان کوئی ذاتی تنازعہ ہے نہ کوئی پرانی دشمنی، بس کمبخت سیاست کی آگ ہے جو لگائے نہیں لگتی اور لگتی ہے تو دامن کو خاکستر کرکے رکھ دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اونٹ کی دشمنی بہت مہنگی پڑتی ہے ہوسکتا ہے یہ بات درست ہو لیکن سیاستدانوں کی دشمنی اونٹ کی دشمنی سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہے، اس لیے سمجھدار لوگ سیاستدانوں کی اگاڑی سے دور رہتے ہیں۔
اصل میں قضیہ بہت معمولی ہے۔ حضرت مولانا حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی جان ہیں۔ اگرچہ بعض وقت خود اپنے مولانا کو رہنما دغا دے جاتے ہیں جیساکہ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو دے گئے ہیں۔ بلاول کا کہنا ہے کہ مولانا طاقت کے ذریعے حکومت کو گرانا چاہتے ہیں اور ہم اس کے خلاف ہیں۔ بلاول بھٹو کا حافظہ کمزور لگتا ہے کیونکہ بلاول بھٹو عمران خان کو ووٹ کے ذریعے نہیں طاقت کے ذریعے ہی اقتدار سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ووٹ کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے لیے ابھی چار سال چاہئیں اور یہاں حال یہ ہے کہ اقتدار کے بغیر "ساتھیوں " کو ایک پل بھی پہاڑ لگتا ہے۔ اگر شارٹ کٹ کرنا ہو تو مولانا جیسے طاقتور لوگوں کو ہی آگے لانا پڑے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بلاول بھٹو کے غچا دینے سے مولانا کے جوش و جذبے پر کچھ اثر پڑا ہے یا نہیں البتہ نواز شریف جس راستے سے اقتدار کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ راستہ مولانا والا ہی ہے۔ مولانا کے ہزاروں کارکن نظم و ضبط کے اس قدر پابند ہیں کہ اگر مولانا کہیں کہ کارکن اپنے مورچوں سے نہ ہٹیں تو کیا مجال کہ کوئی کارکن اپنی جگہ چھوڑ دے۔ مہنگائی اتنی شدید ہے کہ چیل انڈہ چھوڑ رہی ہے۔
ہماری حزب اختلاف کو امید تھی کہ مہنگائی کی گرمی سے عوام تنگ آکر باہر نکلیں گے لیکن پتا نہیں عمران خان نے کیا پھونک ماری ہے عوام کسی حوالے سے باہر نکل کر ہی نہیں دے رہے ہیں۔ حزب اختلاف آج گئی یا کل گئی کا ورد کر رہے تھے لیکن آئی ایم ایف کی رپورٹ، اسٹیٹ بینک کی رپورٹ عمران خان کے جانے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ادھر عمران خان چین کو اس قدر پسند آگئے ہیں کہ وہ پاکستان کو چین سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے اور انکل ٹرمپ بھی خان کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں تو مولانا کی دال گلنے کے تمام راستے مسدود نظر آرہے ہیں۔