آج کل عالمی سطح پر بین المذاہب رواداری کی باتیں ہو رہی ہیں، اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا کے حوالے سے پروپیگنڈے پر بھی گفتگو ہو رہی ہے۔ یہ بات اس لیے باعث مسرت ہے کہ ان دونوں مسائل کے مقاصد بڑے بامعنی اور مثبت ہیں۔
دنیا کی تاریخ مذہبی جنگوں سے عبارت ہے، دنیا میں مذہب کے نام پر بہت خون بہایا گیا ہے، اب اسے بند ہونا چاہیے۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ ہر انسان اپنے مذہب سے محبت کرتا ہے، ہر انسان کو اپنے مذہب سے محبت کا حق ہے لیکن دنیا میں ایسے عناصر کی بھی کمی نہیں جو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے مذہب کا سہارا لے کر معاشرے میں خلفشار پیدا کرتے ہیں۔
مذاہب کی تاریخ بہت پرانی ہے، مذاہب انسانوں کی اصلاح کے لیے ہیں تاکہ معاشرے میں محبت اور رواداری، ایمانداری کا کلچر فروغ پا سکے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہوں اور فاتحین نے کمزور اقوام کی دولت لوٹنے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے جنگیں برپا کیں، ان میں کئی ایسے ہیں جھنہوں نے مذہب کا سہارا لے کر جنگ و جدل اور خون خرابہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن معاشروں پر لالچی، دھوکا باز، عیار اور منافقین کا غلبہ ہوتا ہے، ان معاشروں میں وہ ظلم وجبر اور وہ تمام برائیاں سرائیت کرجاتی ہیں، جن کی وجہ سے ماضی کی کئی تہذیب مٹ گئیں۔
انسانی فطرت بڑی متنوع ہے جہاں محبت کرنے والے موجود ہیں وہیں نفرت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ لیکن معاشرے البتہ ان متضاد نظریات کی وجہ سے ہمیشہ خون آلود رہے، ماضی میں علم اور فراخ دلی کی کمی تھی لیکن اب علم بھی ہے اور فراخ دل لوگوں کی کمی بھی نہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی منافرت کا بول بالا ہے۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک بچہ اپنی پیدائش میں تو انسان کا بچہ ہی ہوتا ہے لیکن جس گھر اور خاندان میں یہ بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اس خاندان کی طرز معاشرت اختیار کر لیتا ہے۔
ہر مذہب کی عبادت گاہیں موجود ہیں لیکن ان میں انسانوں سے محبت کرنا بہت کم سکھایا جاتا ہے، اس کے برخلاف ایک دوسرے سے مختلف حوالوں سے نفرت کرنے کی زیادہ سہولتیں حاصل ہیں اور انتہا پسند مذہبی ایلیمنٹ ان حالات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ترکش کا ہر تیر باہمی منافرت کو بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
انسان کے اس منفی رویوں ہی سے ہماری دنیا جہنم بنی ہوئی ہے اور انسان خود اس جہنم میں جل رہا ہے۔ مذہبی معاملات میں مذہبی رہنما ؤںکا اہم کردار ہے کیونکہ مذہبی رواداری کے حوالے سے اب تک ایسی مربوط اور منظم کوششیں نہیں کی گئیں، جن کی ضرورت ہے اس کا نتیجہ محبت اور رواداری کے جذبات انسانوں میں ابھارے نہ جاسکے۔ انسان سے انسان کی محبت ہی وہ اصل اور بنیادی چیز ہے جو معاشروں کو خوشگوار بناتی ہے، اگر دنیا میں انسانوں سے محبت کرنے والے تعداد میں زیادہ ہیں تو دنیا جنت بن جاتی ہے اگر دنیا میں انسانوں سے نفرت کرنے والے انسان زیادہ ہیں تو پھر دنیا جہنم بن کر رہ جاتی ہے۔ ان ساری کوتاہیوں کی وجہ جہالت اور کم علمی ہے اور یہی جہالت اور کم علمی انسانوں کو حیوان بنا دیتی ہے، اس کے ازالے کے بغیر انسان انسان نہیں بن سکتا۔
بین المذاہب رواداری کا تصور انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے، ایک دوسرے سے محبت کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے انسان اب تک اس حوالے سے گمراہ رہا اور دنیا کو جنت بنانے کی بجائے جہنم بنانے کی بالواسطہ یا بلاواسطہ کوشش کرتا رہا۔ یہ انسان کی وہ گمراہی ہے جس کی وجہ انسان ایک دوسرے سے نفرت زیادہ محبت کم کرتا ہے، یہ مذہبی منافرت ہی تھی جس نے 1947 میں 22 لاکھ انسانوں کو تہہ تیغ کردیا۔
یہ نفرت ہی ہے جو کشمیر اور فلسطین میں قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے، اگر نفرت اور مذہبی تفاوت کو بیچ میں سے ہٹا دیا جائے تو دنیا محبت کا آتش فشاں بن سکتی ہے، بہرحال دنیا میں جو بھی لوگ بین المذاہب رواداری کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی عظمت کو سلام، لیکن اس عظیم کام کو ادھورا نہ چھوڑا جائے کیونکہ یہ ایک ایسا کام ہے جو مستقبل میں انسانوں کے درمیان کھڑی کی گئی نفرت کی دیواروں کو گرا دے گا۔ یہ ایک اچھا کام ہونے کے علاوہ ایک اتنا بڑا کام ہے کہ اس کو کرنے والوں کو تاریخ یاد رکھے گی، اس بڑے کام کے لیے دنیا بھر میں بین المذاہب یکجہتی کی تنظیمیں بنائی جائیں۔