1947 میں تقسیم کے موقع پر بھارت میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے وہ ایک ایسا المیہ تھے جسے بھلایا نہیں جاسکتا، جن شہروں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا گیا تھا، ان میں بھارت کا پایہ تخت دہلی بھی تھا ویسے تو اس دوران ہندو بلوائیوں نے بار بار فرقہ وارانہ فسادات کا بازار گرم کیا لیکن 25 فروری کو دلی میں ایک بار پھر مذہبی شیطانوں نے آگ اور خون کی ہولی کھیلی اس بار 8 مسلمان شہید ہوئے اور زخمیوں کی تعداد نامعلوم، ظالموں نے ایک مسجد کو بھی شہید کر دیا۔
پولیس کی سرپرستی میں ہندو مذہبی شیطانوں نے مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور گاڑیاں جلا دیں اشوک نگر مسجد میں بلوائیوں نے مینار پر چڑھ کر توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔ اس جگہ بربریت کا شدید مظاہرہ کیا گیا جس میں 150 مسلمان زخمی ہوگئے۔
بھارت کے حالیہ دورے پر آئے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ کشمیر ایک کانٹا ہے جب کہ بھارت کے وزیر اعظم اچھے آدمی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ میرے دونوں وزرائے اعظم سے اچھے تعلقات ہیں، ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا کہ میں دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کرانے کو تیار ہوں۔ ٹرمپ بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں ان کی لگائی ہوئی آگ جل رہی ہے اور وہ کشمیر کی آگ بجھانے کی آفرکر رہے ہیں۔ بھارت کے شمال مشرقی علاقے چھاؤنیوں میں بدل گئے ہیں، تعلیمی ادارے بند ہیں۔
انسان پیدائشی طور پر معصوم اور محبت کرنے والا جاندار ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس معصوم انسان کو عوام دشمن طاقتوں نے مختلف حوالوں سے بانٹ کر ان کے دلوں کو نفرتوں سے بھر دیا ہے اس دیوتا سمان انسان کو شیطان بنا دیا گیا ہے۔ آج دلی میں جو قتل و غارت کا بازارگرم کیا گیا اور معصوم لوگوں کی جانیں لی گئیں اور بہت سارے بے گناہوں کو زخمی کیا گیا اس کی وجہ یہی ہے کہ معصوم انسان کو مذہبی شیطانوں نے اپنی بے جواز نفرت کا نشانہ بنا کر اپنی ناپاک ذہنیت کی تسکین کی اور یہ سب اس لیے ہوا کہ پاپیوں کا لشکر بڑا تھا اور لشکری مسلح بھی تھے ان جاہلوں نے جن جن لوگوں کی جان لی ان کا تعلق کسی نہ کسی خاندان سے ہوگا اس کے عزیز رشتے دار بھائی، بہن، ماں باپ ہوں گے، کیا دلی کے یہ دو پائے حیوان ان بے گناہ باقی رہ جانے والوں کی زندگیوں کی کٹھنائیوں کا اندازہ کرسکتے ہیں؟
ان انسانوں کو شیطان بنانے والے سیاست کاروں کو احساس ہے کہ نفرت کونفرت، ظلم، ظلم کو جنم دیتا ہے72سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے لمبے عرصے تک ایک ساتھ رہنے والے جانور بھی ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتے ہیں لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ صدیوں سے نسل در نسل ایک ساتھ رہنے والوں میں انسانیت کا رشتہ پیدا نہ ہو سکا کیونکہ ہر مذہب و ملت کے ماننے والوں میں بلاشبہ اکثریت انسانوں کی ہوتی ہے اور وہ اسی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔
یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ پاکستانی عوام نسبتاً صابر ہیں اگر یہ صابر نہ ہوتے تو دلی کے مسلمانوں کا بدلہ لینے کے لیے آٹھ مسلمانوں کے بدلے وہ سولہ ہندوؤں کو قتل کرچکے ہوتے لیکن پاکستانی مسلمانوں نے جس درگزر اور صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا اس سے وہ دنیا کی نظروں میں قابل تعریف اور قابل احترام ہی ٹھہرے۔
اس حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی قیادت ہی مذہبی انتہا پسند ہے بھارت کا حکمران طبقہ جس میں بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہے مذہبی انتہا پسند جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور تو اور بھارت کا " چائے والا " وزیر اعظم جس کا تعلق بھارت کے نچلے ترین طبقے سے ہے اسے پہلے ہی سے گجراتی مسلمانوں کے قاتل کا تمغہ ملا ہوا ہے اور جسے آر ایس ایس سے فنڈ بیک ملتی ہے وہ کس قدر متعصب ہے اس کا اندازہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کیے جانے والے بدترین سلوک سے کیا جاسکتا ہے۔ بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اسے اپنے بڑپن کا خیال رکھنا چاہیے لیکن بھارت کی مذہبی انتہا پسند طاقتوں نے مودی کو بھی اندھا کردیا ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو آر ایس ایس چاہتی ہے۔
پاکستان ایک مذہبی ملک ہے اور ملک میں درجنوں انتہا پسند مذہبی جماعتیں ہیں لیکن ان میں صبر و بردباری ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں ہندو مسلم فسادات نہیں ہوتے جب کہ بھارت اپنے آپ کو سیکولر کہتا ہے لیکن اس سیکولر ملک پر غلبہ آر ایس ایس جیسی وحشی مذہبی انتہا پسند جماعت کا ہے حالانکہ بھارت کی مذہبی صورتحال یہ ہے کہ ان کے درجنوں بھگوان ہیں جو پتھر کو تراش کر بنائے جاتے ہیں ایسے مذہب کے ماننے والے اگر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ دیوی دیوتاؤں کا تعلق آج کی ترقی یافتہ دنیا سے قطعی نہیں ہوسکتا یہ دور جہالت کی باقیات ہیں۔
کشمیری مسلمانوں پر بھارتی حکومت جو مظالم ڈھا رہی ہے اس کا اندازہ کشمیر میں نافذ پانچ ماہ سے زیادہ عرصے سے نافذ کرفیو سے لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ دنیا کو کشمیر پر لاگو پانچ ماہ سے زیادہ عرصے کا نہ کرفیو نظر آتا ہے نہ درجنوں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں سے مارے جانے والے غریب مسلمان۔ آج کل امریکا کے صدر ٹرمپ بھارت کا دورہ کر رہے ہیں دلی کے فسادات کے حوالے سے ٹرمپ نے زبان بند کر رکھی ہے۔ اگر ٹرمپ میں غیر جانبداری اور رواداری ہوتی تو وہ احتجاجاً بھارت کا دورہ مختصر کرکے اپنے وطن لوٹ جاتے لیکن آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ملکوں کے درمیان ہر رشتہ مفادات سے بندھا ہوا ہوتا ہے جو سچ اور انصاف کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا رہتا ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ دنیا کے ممالک کی طرف سے نہ ان مظالم کی مذمت کی گئی نہ احتجاج کیا گیا۔ کشمیری عوام 70 سال سے یہ مظالم سہتے آ رہے ہیں اقوام متحدہ کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ کشمیری عوام کے مسئلے پر متحرک ہو ٹرمپ بار بار ثالثی کی پیشکش کرکے نمبر تو بنا رہے ہیں لیکن وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بھارت پر ان کی ثالثی آفر کا کوئی اثر نہیں ہوگا، پاکستان مقدور بھر کوشش کر رہا ہے۔