دنیا بھر میں پی ٹی آئی حکومت کے تعلقات ہیں، عمران خان کرکٹ کی وجہ سے دنیا میں معروف تھے، اب وہ اس ملک کے وزیر اعظم کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہیں۔ ملک میں کورونا سے ہر روز 100 سے زائد انسان موت کا شکار ہو رہے ہیں، ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے لیکن حکومت اس حوالے سے بالکل لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
عوام حیران ہیں کہ رات دن عوام کا وظیفہ پڑھنے والے وزیر اعظم اس نازک وقت میں بالکل لاتعلق بنے ہوئے ہیں جس کو عوام شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور متعجب ہیں کہ عوام کا یہ ہمدرد ایسے نازک موقع پر لاتعلق کیوں بنا ہوا ہے۔ اس حوالے سے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ویکسین بہت مہنگی ہے، بارہ ہزار روپے میں صرف ایک شخص کو انجکشن لگ سکتا ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے، بارہ ہزار روپے فی کس کے حساب سے کتنی رقم بن سکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ایسی نازک صورتحال میں وزیراعظم عمران خان کا یہ فرض ہے کہ وہ دنیا کے ان ملکوں سے جو ویکسین بنا رہے ہیں، ویکسین بطور امداد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ابھی بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں جانی نقصان کا تناسب بہت کم ہے لہٰذا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ویکسین حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ دوسری ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان ویکسین بنانے کی کوشش کرے، اس کی ٹیکنالوجی ہو سکتا ہے بہت مشکل ہو لیکن ناممکن نہیں۔ رہا قیمت کا سوال سو اس کے لیے بیرونی امداد کے علاوہ ملک کے اندر سے پیسے جمع کرنے کی کوشش کی جائے۔
ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ارب پتی ہیں، ان سے بھاری چندے کی شکل میں رقم وصول کی جائے تو اربوں روپیہ جمع ہو سکتا ہے جس سے ویکسین خریدی جاسکتی ہے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوشش کی جائے تو ویکسین کا حصول ناممکن نہیں۔ کوشش اور سخت کوشش کی ضرورت ہے، انسانی برادری کو اس حوالے سے تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ رنگ، نسل، ذات پات، قومیت کے حوالے سے تقسیم کا مرض ہماری دنیا میں بہت ہے آج دنیا جس صورتحال سے گزر رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ تقسیم کے ہر حوالے کو فی الوقت پس پشت ڈالا جائے اور صرف انسان کی حیثیت سے اس وبا کا مقابلہ کیا جائے۔
دنیا میں سرمایہ داروں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ ایک ایک فرد کے پاس اربوں روپے ہیں، اس دولت کو اگر ویکسین بنانے میں لگایا جائے تو بہت بڑی مقدار میں ویکسین حاصل کی جاسکتی ہے۔ ویکسین لگانے کا کام مرحلہ وار کیا جائے مثلاً 60 سال سے زیادہ عمر والوں کو پہلے ویکسین لگائی جائے، اس کے بعد 50 سال سے 60 سال تک عمر کے لوگوں کو ویکسین لگائی جائے، اس کے بعد 40 سال سے 50 سال کی عمر والوں کو ویکسین لگائی جائے، اس طرح کا کوئی سسٹم بنایا جائے اور اس پر بتدریج عمل کیا جائے تو اس سے بہت فائدے ہوسکتے ہیں۔ بات صرف ایک سسٹم بنانے کی ہے۔
بات بڑی حیرت کی ہے کہ دنیا میں ہزاروں ارب پتی موجود ہیں اگر ان کی دولت ایسے موقع پر بھی کام نہ آسکے تو اس سے بڑی شرم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ انسان کو سیکڑوں برس سے تقسیم کرکے رکھ دیا گیا ہے، اگر اب بھی اس تقسیم کو بامعنی نہ بنایا گیا تو یہ انسانیت سے گرا ہوا کام ہوگا۔
دنیا کی تاریخ میں انسانوں پر بہت برے وقت آئے ہیں اور بہت بڑا جانی نقصان بھی ہوا ہے لیکن کورونا کی شکل میں انسانوں پر جو بلا آئی ہے، اس کی وجہ سے دنیا زیر و زبر ہو کر رہ گئی ہے۔ دنیا میں کورونا سے انسانوں کا جو جانی نقصان ہو رہا ہے، اس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔ انسان نے محض اپنی اغراض کی خاطر کرہ ارض کو جہنم میں بدل دیا ہے اور حصول زر اس کا سب سے بڑا مقصد ہے لیکن آج جب ہم کورونا کی وبا پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ غریب اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے ویکسین بھی نہیں لگا سکتے اور خاموشی سے اس وبا کی نذر ہوجاتے ہیں۔
ملک میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو عوام کے لیے ویکسین خرید کر دے سکتے ہیں لیکن دولت جمع کرنے کی ہوس نے انھیں جانور بنا دیا ہے، وہ اپنے اور اپنے خاندان کے تحفظ کے علاوہ کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں۔
دنیا کے ارب پتیوں کے پاس جو دولت ہے وہ ان کی محنت کی کمائی نہیں ہے جن غریب طبقات کی یہ محنت کی کمائی ہے وہ حسرت سے ویکسین کا نام سنتے ہیں، اسے دیکھ بھی نہیں سکتے، انسانی زندگی کی اس نابرابری نے 80 فیصد انسانوں کو حیوان بنا کر رکھ دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف دولت کے انبار ہیں، دوسری طرف صرف ناداری ہے۔
کیا یہ انصاف ہے۔ ہر وہ خاندان جو ویکسین نہیں خرید سکتا بے بسی سے ان لوگوں کو دیکھتا ہے جو لاکھوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر ویکسین لگوانے معہ خاندان کے آتے ہیں اور ویکسین لگا کر ٹہلتے ہوئے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں جو ایلیٹ ویکسین لگانے کی اہل ہے اگر وہ ایک ایک خاندان کو ویکسین لگانے کی ذمے داری لے لے تو ان کی دولت میں کمی تو نہیں آئے گی البتہ ایک خاندان وبا سے بچ جائے گا۔ ان حالات میں کم ازکم یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہر خاندان کے کمانے والے فرد کو ویکسین لگا کر اس کی زندگی کو تو محفوظ بنا دیا جائے۔
ویسے تو دنیا میں انسان کئی حوالوں سے تقسیم ہے لیکن ان حوالوں میں ایک حوالہ ایسا ہے غریب اور امیر کا کہ جس کی وجہ ہر ملک کا ایک بڑا حصہ غربت و افلاس کا شکار ہے اور عبرت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں اس قدر بددیانتیاں ہوں اس قدر ناانصافیاں ہوں اس معاشرے میں مساوات کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں اس قسم کی معاشی ناانصافیاں ہوئیں وہاں ایک حد تک تو عوام معاشی ناانصافیوں کو برداشت کرتے رہے، آخر جب صبر کا دامن ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا، وہ گھروں سے باہر نکلے اور ظالموں کے سر قلم کرتے چلے گئے۔ انقلاب فرانس اس کی نمایاں مثال ہے۔
آج حال یہ ہے کہ ہر روز سو سے زائد انسان کورونا سے مر رہے ہیں، یہ اگرچہ انسان کا ظلم نہیں قدرت کی طرف سے آئی ہوئی قیامت ہے لیکن انسان کو اپنے بچاؤ اپنے علاج کا حق ہے جو لوگ انسانوں کے اس حق پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔ انقلاب فرانس سمیت کئی ملکوں میں عوام نے ظلم، استحصال اور ناانصافی سے تنگ آ کر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور وہی کیا جو ان کی سمجھ میں آیا۔ اس وبا سے صرف پاکستان ہی نہیں ساری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ صبر کی ایک حد ہوتی ہے، ملک کے کروڑ اور ارب پتیوں اور جو حکومت کررہے ہیں، ان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ غریب عوام کے لیے ویکسین کی فراہمی یقینی بنائیں اور بے بس انسانوں کو کورونا کی بھیانک موت سے بچائیں۔