دنیا کی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ آیا ہو جس سے دنیا اس قدر خوفزدہ رہی ہو اور جس کا اتنا پروپیگنڈا ہوا ہو۔ کورونا وائرس ایک ایسا مرض ہے جس کا کینسر کی طرح علاج دریافت نہ ہوا ہو۔ یہ صرف چند ہفتوں کی بات ہے کہ دنیا نے کورونا وائرس کا نام سنا ہو۔ اس سے قبل کئی حوالے سے اگر کورونا کا نام دنیا میں آیا ہو تو بہت محدود پیمانے پر آیا ہوگا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ تمام براعظموں میں صرف کورونا کا نام سرفہرست ہے اور ساری دنیا کے عوام دم سادھے اس بلا کی تباہ کاریوں پر بات کر رہے ہیں۔ میڈیا تو طوفان اٹھائے ہوئے ہے لیکن "زبانی میڈیا" جس تیزی جس گھبراہٹ کے ساتھ کورونا کا نام لے رہا ہے، ایسا شاید کبھی نہ ہوا ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کورونا اس کرہ ارض کے انسانوں کو ملیا میٹ کرکے ہی رہے گا۔ سب سے حیرت انگیز اس کا پھیلاؤ ہے دیکھتے ہی دیکھتے یہ وبا اس تیزی سے پھیلتی ہے کہ انسان اپنے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔
بار بار ذہن میں یہی سوال آتا ہے کہ کیا اس کا کوئی علاج ہے؟ اب تک کورونا جہاں جہاں پھیلا ہے وہاں تباہی ہی تباہی پھیل گئی اس وبا سے بچاؤ کا ابھی تک کوئی علاج نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ساری دنیا آج اس کی لپیٹ میں ہے کوئی اپنا بچاؤ نہیں کرسکتا۔ یہ وبا اس تیزی سے پھیل رہی ہے کہ اس کو روکنا عملاً ممکن نہیں جو علاج بتایا جا رہا ہے وہ یہ کہ آپ آئسولیشن میں چلے جائیں خواہ کسی اسپتال میں آئسولیٹ ہوں یا اپنے مکان میں اس کے ساتھ شرائط کا ایک پلندہ ہے یہ کریں، یہ نہ کریں۔
ایک بات حیرت انگیز ہے کہ ساری دنیا کے ماہر ڈاکٹر اب تک اس وحشت ناک بیماری کا کوئی علاج دریافت نہ کرسکے کیا دنیا بھر میں موجود لاکھوں ڈاکٹر اس قدر بے بس ہوگئے ہیں کہ اس بیماری یا وبا کا کوئی حتمی علاج دریافت نہ کرسکیں۔
بعض ذہنوں میں یہ خدشات ہیں کہ ایسا تو نہیں کسی سیارے کی مخلوق ہماری دنیا پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کا شبہ یوں ہوتا ہے کہ آج تک کسی نے اس وبا کا وائرس نہیں دیکھا اور یہ بیماری اس تیزی سے پھیلتی ہے کہ انسان کو اپنے بچاؤ کا موقع ہی نہیں ملتا اور اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ "سارا کام" اس تیزی سے انجام پاتا ہے کہ انسان صرف سوچتا رہ جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک سنجیدہ مذاق یہ ہے کہ حکومت صبح سے شام تک اس وبا سے بچاؤ کے طریقے بتا رہی ہے اور بار بار اعلان کیا جا رہا ہے کہ عوام اپنے گھروں سے باہر نہ نکلیں لیکن یہ عجیب تماشا ہے کہ عوام حکومت کی کوئی بات ماننے کے لیے تیار نہیں اور ہر جگہ ہجوم در ہجوم کھڑے ہنسی مذاق میں لگے رہتے ہیں۔
اس وبا سے بچنے کے لیے حکومت کی طرف سے بار بار اعلان ہو رہا ہے لیکن ہمارے عوام نے اس سارے پراسس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ناسمجھ اور موت کے قریب جانے والے عوام اس وبا اور حکومت کی ہدایات کا مذاق اڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نادان اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ میں ان نادانوں کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ کیا موت سے بھی اس طرح مذاق کیا جاتا ہے۔
بلاشبہ زندگی کی ایک خواب سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں لیکن چونکہ یہ خواب صدیوں پر پھیلا ہوا ہوتا ہے اور اس زندگی سے زیادہ خوبصورت کوئی چیز نہیں لہٰذا انسان اس عارضی زندگی سے اس طرح محبت کرتا ہے کہ جیسے اس زندگی کا کوئی انت نہیں اسی وہم میں وہ ساری زندگی گزارتا ہے اور آخر کسی نہ کسی دن موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے، بلاشبہ زندگی ایک دلچسپ خواب کے علاوہ کچھ نہیں لیکن انسان زندگی سے چمٹا رہتا ہے اور آخر ایک دن جلد یا بدیر زندگی سے گزر جاتا ہے۔ اگر زندگی کی اس غیر یقینیت کو سنجیدہ لیں تو شاید انسان اپنا وقت برباد نہ کرے۔
یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے کہ اس وبا کو شروع ہوئے تین ماہ سے زیادہ ہو گیا اور دنیا کے تمام ڈاکٹر اور ماہرین مستقل کوشش کر رہے ہیں کہ اس بلا کا کسی طرح علاج ڈھونڈا جائے لیکن اب تک کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ امریکا اور دوسرے مغرب کے ترقی یافتہ ممالک زندگی کے دوسرے شعبوں میں تو تحقیقی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں لیکن اس مرض یا وبا کا علاج ابھی تک دریافت نہ کرسکے جب کہ اس وبا سے کئی ڈاکٹر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جس کی وجہ سے دنیا کے عوام میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ مستند اور ماہر ڈاکٹر اکٹھے ہو کر اس وبا کی تحقیق کریں۔ دنیا میں بلاشبہ ہزاروں ماہر ڈاکٹر موجود ہیں اور اس بیماری سے جان چھڑانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن شاید یہ کام انفرادی طور پر کیا جا رہا ہے اس لیے وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں جس کی امید کی جا رہی ہے۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ میڈیا میں کورونا کے شہیدوں کے علاوہ کورونا کو شکست دے کر زندگی میں دوبارہ زندگی حاصل کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کورونا کے مریض صحت مند ہو رہے ہیں تو ضرور اس میں کوئی دوا کا ہاتھ ہو سکتا ہے اگر ایسا ہے تو پھر اس دوا کو منظر عام پر لا کر اس کے ذریعے کورونا کے لاکھوں بیماروں کا علاج کیوں نہیں کیا جا رہا؟ یا پھر یہ خبریں غلط ہیں کہ کورونا کے مریض صحت مند ہو رہے ہیں؟ بہرحال حالات اس قدر خطرناک ہوگئے ہیں کہ اب کسی نہ کسی طرح اس کا علاج ڈھونڈا جانا چاہیے۔