وہ بیماری جس سے ساری دنیا میں ایک بھونچال آگیا ہے، پاکستان میں اس کی تباہ کاریاں اچانک بڑھ گئی ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بیگم دونوں کورونا کا شکار ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم ویکسین لگانے سے پہلے ہی کورونا کا شکار ہو چکے تھے بہرحال وزیر اعظم اور ان کی بیگم کا علاج جاری ہے ہماری خصوصی دعا ہے کہ عمران خان اور بشری بیگم جلد صحت یاب ہوجائیں کہ پاکستان کے عوام کو ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ ملک کی تاریخ میں عمران خان ایک منفرد حیثیت کے مالک وزیر اعظم ہیں بے ایمانی اورکرپشن کی بھرمارکے اس ماحول میں کسی ملک کی وزارت عظمیٰ پر ایک محنتی اور ایماندار سربراہ کی موجودگی باعث مسرت بھی ہے اور ملک کے بہتر مستقبل کے حوالے سے امید کی ایک کرن بھی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں خاص طور پر اپوزیشن کی طرف سے نہ کوئی تشویش کا اظہار کیا گیا نہ بیماروں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا جب کہ ان دونوں کو متاثر ہوئے، بھارتی وزیر اعظم نے عمران خان کی بیماری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شبھ کامناؤں کے ذریعے بیماروں کی مزاج پرسی کی ہے۔ بین الاقوامی اکابرین کی طرف سے بھی ابھی تک رسمی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ کورونا ایک خوفناک بیماری ہے۔
اب تک اس بیماری سے لاکھوں کی تعداد میں انسان ہلاک ہو چکے ہیں اور اس سے زیادہ تعداد متاثرین کی ہے۔ ساری دنیا میں ایک دہشت پھیلی ہوئی ہے لیکن انسان اس خوف کے ماحول میں بھی معمول کے مطابق زندگی گزار رہا ہے۔ اس حوالے سے البتہ پاکستان میں سخت تشویش کی بات یہ ہے کہ عوام اس خطرناک اور ہلاکت خیز بیماری کا نہ کوئی نوٹس لے رہے ہیں نہ حکومت کی طرف سے عوام کو جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ٹی وی پر بار بار مشورے دے رہے ہیں، اس کا نوٹس ہمارے بہادر عوام لینے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ ہمارا ملک ایک پسماندہ ترین ملک ہے جہاں ہر طرف صفائی ستھرائی کے بجائے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور سڑکیں گٹر کے گندے پانی کا تالاب بنی ہوئی ہیں۔
ہر چندکہ ویکسین لگانے کا بندوبست بھی کیا جا رہا ہے لیکن ہماری آبادی کے حوالے سے یہ بندوبست اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت رکھتا ہے، صرف کراچی کی آبادی 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے اور ویکسین لگانے کی رفتار گدھے یا کچھوے کی رفتار سے زیادہ نہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر بھر میں درجنوں جگہوں پر ویکسین لگانے کا اہتمام ہونا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو موبائل طریقوں سے سارے شہر کے عوام کو ویکسین لگانے کی کوشش کی جانی چاہیے، ویکسین لگانے کا کام اکیلی حکومت نہیں کرسکتی۔ معمولی قیمت کے عوض پرائیویٹ سیکٹر کو بھی شہر بھر میں ویکسین لگانے کی اجازت بلکہ حکم دیا جائے۔
ساری دنیا میں جانی نقصان کے حوالے سے جو تباہ کاریاں دیکھی جا رہی ہیں اس کے پیش نظر تو ضرورت اس بات کی تھی کہ عالمی سطح پر اس وبا کے خلاف ایک دفاعی تیاری کی جاتی یا کم ازکم عالمی سطح پر احتیاطی تدابیر کا انتظام کیا جاتا۔ ایس او پیز کے حوالے سے پاکستان میں جن احتیاطی تدابیر کا چرچا ہے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس حوالے سے ایک فیصد شہری بھی ایس او پیز پر عمل کرتے دکھائی نہیں دیتے بلکہ ایس او پیز کو ایک مذاق بنا دیا گیا ہے، جب کہ اس بیماری کی سنگینی کا حال یہ ہے کہ ذرہ سی بے احتیاطی اس وبا کی پکڑ میں آنے کا سبب بن رہی ہے۔ دنیا میں اور بھی بے شمار پسماندہ ممالک ہیں لیکن اس خطرناک وبا کے حوالے سے انتہائی شرمندگی اور خوف کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اس حوالے سے نری جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
سب سے بڑی افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ویکسین لگانے کا کوئی معقول انتظام نہیں چند نامعلوم جگہوں پر بہت چھوٹے پیمانے پر ویکسین لگائے جانے کی خبریں ہیں۔ میڈیا میں یہ بتایا گیا تھا کہ آرٹس کونسل میں ویکسین لگانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس کے لیے عوام اپنی رجسٹریشن کرا لیں ہم بھی آرٹس کونسل کے سینئر ممبر ہیں، ہم آرٹس کونسل فون کرتے رہے لیکن اس حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ مسئلے کی نوعیت کے پیش نظر کئی لوگوں کو معلومات فراہم کرنے پر لگایا جانا چاہیے تھا۔
بیماری کی سنگینی کے پیش نظر اس کو ایک ایمرجنسی ڈکلیئر کرکے عوام کو احتیاطی پابندیوں پر زبردستی عمل کرایا جاتا، احتیاطی پابندیوں پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی کیونکہ اس بیماری کا تعلق زیادہ تر احتیاط سے ہے۔ ملک کا وزیر اعظم اور ان کی بیوی کورونا کے شکار ہوگئے ہیں چونکہ اس بیماری کا تعلق پوری دنیا سے ہے لہٰذا عالمی سطح پر ایک مخصوص ایمرجنسی نافذ کی جانی چاہیے۔ جس پر لازمی طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے اس کے علاوہ اس بلا سے نمٹنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
اسکولوں اور کالجوں کے کھلنے اور بند ہونے کا ایک واضح لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے جس میں بچوں کی صحت کا لازمی طور پر پورا خیال رکھا جائے۔ علم بہت ضروری ہے لیکن جان سے بڑھ کر کوئی چیز ضروری نہیں۔ یہ ساری ذمے داری حکومت کی ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ملک کا وزیر اعظم معہ بیگم کے اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔
اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ عوام نے احتیاطی تدابیرکو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے اور موج مستی کا وہی عالم ہے جوکورونا سے پہلے تھا۔ اسے ہم بہادری نہیں بے وقوفی ہی کہہ سکتے ہیں جس سے عوام کو جتنی جلدی ہو نجات پانی چاہیے کیونکہ مرض کی رفتار آئے دن تیز ہو رہی ہے۔ ویکسین کی تقسیم اور لگانے کا انتظام بہت مربوط ہونا چاہیے۔ مرض کی خطرناکی کے حوالے سے میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا پر احتیاطی تدابیر کی زیادہ سے زیادہ پبلسٹی ہونی چاہیے تاکہ ایس او پیز کا فائدہ ہو۔