بیماریوں کی تاریخ کی ایک دہشت ناک بیماری کورونا وائرس کی شکل میں کرہ ارض پر نازل ہو گئی ہے اور ساری دنیا دہشت زدہ ہے۔ اس بیماری سے بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے۔ چین جہاں سے اس بیماری کا آغاز ہوا ہے وہاں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔
اطلاعات کے مطابق چین میں اب تک اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد 2300 سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ اس بیماری سے متاثرین کی تعداد 76 ہزار سے زیادہ ہے۔ یہ وائرس تیزی سے دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیل رہا ہے۔ چین سے باہر اب تک 30 ممالک میں یہ وبا پھیل چکی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے عالمی پھیلاؤ کو روکنے کے مواقعے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی برادری سے اس بات کی متقاضی ہے کہ جلد از جلد اسے روکنے کے طریقے تلاش کیے جائیں۔
اطلاعات کے مطابق ایران میں اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد 5 ہو گئی ہے اور 28 سے زیادہ افراد اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ متاثرہ افراد کا تعلق قم شہر سے ہے۔ جنوبی کوریا میں یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے جہاں 229 نئے کیسز سامنے آئے ہیں جس کے بعد متاثرہ افراد کی تعداد 433 ہو گئی ہے۔ اٹلی میں اب تک 14 نئے کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔
چین کے باہر اب تک 30 ممالک میں کم از کم 16 افراد ہلاک جب کہ 11 سو سے زیادہ میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ چین میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی مدد سے کورونا وائرس کے علاج کے لیے 2 ادویہ کی جانچ شروع کر دی گئی ہے، ان ادویہ کی جانچ کے نتائج تین ہفتوں میں سامنے آئیں گے۔ یہ صورتحال عالمی برادری سے اس بات کی متقاضی ہے کہ اس حوالے سے بلا تاخیر اس وبا کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
اٹلی میں اب تک 14 نئے کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے لبنان اور اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ جنوبی کوریا میں بھی کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایران کے شہر قم اور تہران میں اسکول اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے کے احکامات آ چکے ہیں ایک اعلامیے کے مطابق تفتان بارڈر پر پہلے سے دو ڈاکٹر تعینات ہیں جب کہ آٹھ مزید ڈاکٹر تھرمل گن کے ساتھ تفتان پہنچ گئے ہیں۔ جو ایران سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ کریں گے۔ محکمہ صحت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ کھانسی اور بخار کی صورت میں فوری طور پر قریبی اسپتال میں پہنچیں۔ اسلام آباد سے این آئی ایچ کی ٹیمیں بھی تفتان پہنچ رہی ہیں۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ وبا میں کمی آ رہی ہے مگر متاثرین کی ہلاکتوں کا سلسلہ ابھی تک نہیں روکا جا سکا۔ سعودی عرب نے اپنے شہریوں اور ملک میں مقیم غیر ملکیوں کو ایران کے سفر پر پابندی لگا دی ہے۔ چین کے صدر نے بل گیٹس اینڈ میلنڈا فاؤنڈیشن کے شریک چیئرمین بل گیٹس کو جوابی خط لکھ کر کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے چین کے اداروں کی مدد کے لیے شکریہ ادا کیا۔ بل گیٹس نے مسٹر چنگ پنگ کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ان کی فاؤنڈیشن ہنگامی طور پر 10 کروڑ ڈالر کی مدد دینے کے لیے تیار ہے جس سے بیماری کی تشخیص اور علاج میں مدد ملے گی چین کی ہائی نان ایئرلائن نے 450 پروازیں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
میں جب کورونا وائرس کے حوالے سے اخبار میں خبریں تلاش کر رہا تھا تو میری نظر ایک دو کالمی خبر پر پڑی جس کی سرخی کھوئی رٹہ، بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ لائن آف کنٹرول کے سیکٹر کھوئی رٹہ پر بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری، بزدل بھارتی فوج نے سول آبادی کو نشانہ بنایا۔ ایک دوسری خبر کے مطابق "کئی سیاستدانوں نے آف شور کمپنیاں بنا کر جائیدادیں چھپائیں۔" یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دنیا ایک بھیانک بیماری کورونا وائرس کا شکار ہے جس میں اب تک 23 سو افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں اور 76 ہزار لوگ متاثرین میں شامل ہیں اس کے علاوہ دنیا کے درجنوں ممالک میں یہ بیماری پھیل چکی ہے۔ ایسی خوفناک صورتحال میں علاقائی سطح پر مہذب ممالک ایک دوسرے کی پرامن آبادیوں پر حملے کر رہے ہیں۔
ادھر کورونا جیسی دہشت ناک بیماری میں 76 ہزار انسان ملوث ہو گئے ہیں اور زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں تو دوسری طرف نائیجیریا آپریشن میں 120 شدت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ شدت پسند کون ہیں؟ کیا یہ انسان ہیں؟ یقینا انسان کہلاتے ہیں۔ کیا کسی بل گیٹس فاؤنڈیشن نے انھیں انسان بنانے کی کوشش کی کیا اس کام کے لیے بھاری رقم خرچ کی؟
ہماری کائنات کو وجود میں آئے ہوئے اربوں سال گزر چکے ہیں۔ اس دوران کورونا جیسی کتنی وبائیں آئیں اور کتنے لاکھ انسان ان وباؤں کی نذر ہو گئے جس کا اندازہ مشکل ہے لیکن اس دور میں نہ انسانوں میں شعور تھا نہ کسی بیماری کے شافی علاج کی سہولت اس لیے اس دور کے انسان نہ بیماریوں کو سمجھتے تھے نہ اس کا علاج کر سکتے تھے۔ بس بے بسی کی موت کا شکار ہو جاتے تھے۔
آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی، دریافت اور تحقیق کی دنیا ہے، طبی سائنس کی ترقی کا عالم یہ ہے کہ دل گردے اور جگر جیسے نازک اعضا بدلے جا رہے ہیں۔ انسان دل میں بیٹری لگا کر زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن یہ سارے کام ابھی تک ادھورے ہیں، کورونا کو ہی لے لیں اس بیماری سے ہزاروں انسان موت کا شکار ہو چکے ہیں اور 76 ہزار انسان اس خطرناک بیماری سے متاثر ہیں۔ لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس بیماری کے محرکات کیا ہیں یعنی اب تک اس بیماری کی سو فیصد درست تشخیص نہیں ہو سکی۔ نہ اس دہشت ناک بیماری کا علاج دریافت ہو سکا۔ دنیا میں ہتھیاروں کی تیاری پر اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں کیا کورونا وائرس کی تحقیق پر ضرورت کے مطابق رقوم خرچ کی جا رہی ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔