انسان کی بنیادی ضرورتوں میں علاج ایک اہم بنیادی ضرورت ہے۔ پاکستان میں عوام کو مفت علاج فراہم کرنے کے لیے کچھ سرکاری اسپتال موجود ہیں جو عوام کو علاج کی مفت سہولتیں فراہم کرتے ہیں لیکن ان مفت سہولتوں کی حقیقت سے عوام اس قدر اچھی طرح واقف ہیں کہ علاج کے لیے ہومیو پیتھک دواؤں کو ترجیح دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہومیو پیتھک دوائیں نسبتاً سستی ہوتی ہیں بلکہ اب یہ کہنا درست ہوگا کہ نسبتاً سستی ہوتی تھیں، اب یہ دوائیں اس قدر مہنگی کردی گئی ہیں کہ عوام ان دواؤں سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔
دنیا کے دیگر ملکوں میں انسانوں کی بنیادی ضرورتیں جن میں علاج بھی شامل ہے مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن ہمارے ملک کا اس حوالے سے یہ حال ہے کہ جان بچانے والی دواؤں کی خریداری بھی جان لیوا بن گئی ہے، سرکاری اسپتالوں سے80 فیصد دوائیں چوری کرکے میڈیکل اسٹوروں میں پہنچا دی جاتی ہیں۔
آج کل ہمارا ملک کورونا وائرس کی وبا کا شکار ہے، ملک میں رہنے والے 22 کروڑ عوام اس وبا سے سخت خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ اب تک اس کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ یعنی اس مرض کی ویکسین تیار نہیں کی جاسکی۔ یہ بیماری دنیا کے 165 ملکوں تک پھیل گئی ہے اور اس بیماری سے موت کا شکار ہونے والوں کی تعداد 7، 987 ہوگئی ہے، اس بیماری سے متاثرہ لوگوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔ اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس بدنما حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اٹلی میں ایک روز میں 345 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ایران میں 988، اسپین میں 19 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
ہماری سابقہ اور حالیہ حکومتیں عوام کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے کے نام پر جو ہیلتھ کارڈ فراہم کر رہی ہیں اس کا پروپیگنڈا تو خوب کیا جا رہا ہے لیکن ملک کی دس فیصد آبادی کو بھی یہ ہیلتھ کارڈ دستیاب نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام عملاً علاج کی سہولتوں سے محروم ہیں اور سرکاری اسپتالوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ اس بدنصیبی کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو نہ اب تک عوام سمجھا گیا نہ ان کی بنیادی ضرورتوں کی طرف دھیان دیا گیا۔
جس ملک کے حکمران طبقات ساری دنیا میں اربوں کی کرپشن کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اس ملک کے عوام کا اگر یہ حشر ہو رہا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، جب سرکار عوام کے لیے کچھ مفت سہولتوں کا اعلان کرتی ہے تو اس کے ذہن میں یہ نہیں رہتا کہ صرف ایک شہر کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے۔ کیا آج تک عوام کو مفت سہولتیں فراہم کرنے کی ایک بھی دعویدار حکومت ملک کے 22 کروڑ عوام کو یہ نام نہاد مفت سہولتیں فراہم کرسکی ہے؟
ماضی کی بات ہم اس لیے نہیں کریں گے کہ پورا ماضی کرپشن سے بھرا رہا ہے، جس ملک میں ایسے حکمران ہوں تو اس ملک کے عوام کا کیا حال ہو سکتا ہے اس کی وضاحت ضروری نہیں ہوتی۔ ہم کورونا وائرس کی پھیلائی ہوئی تباہی کو صرف پاکستانی حکمرانوں کا جرم نہیں کہہ سکتے کہ ساری دنیا اس تباہی سے دوچار ہے لیکن اس افسوس ناک حقیقت سے کس طرح انکار کیا جاسکتا ہے کہ اس بیماری کے لاکھوں مریضوں کو تشخیص کی سہولتیں تک حاصل نہیں، بے شمار لوگ اپنی بیماری کی تشخیص کے بغیر موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر ہر روز بتایا جا رہا ہے کہ کورونا کے بہت سارے مریض صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔ کیا اس بات میں کوئی صداقت ہوسکتی ہے؟
اگر کورونا کا ایک مریض بھی صحت یاب ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کورونا کی دوا دریافت ہوگئی ہے۔ اور دوا دریافت ہوجاتی تو کورونا کے سارے مریضوں کا علاج کیوں نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمارے ملک میں لوٹ مار کا یہ عالم ہے کہ وہ ماسک جو وائرس سے بچنے کے لیے منہ اور ناک پر باندھی جاتی ہے، وہ بھی لاکھوں کی تعداد میں بلیک مارکیٹنگ کی نظر ہوگئی۔ ہماری انتظامی مشینری ایسے شرمناک جرائم کی روک تھام اس لیے نہیں کرتی کہ وہ بھی اس جرم میں حصہ دار ہوتی ہے۔
کورونا کی بیماری ایک عذاب کی صورت میں نازل ہوئی ہے اور بے چارے عوام خوف سے بے حال ہو رہے ہیں، ایسے موقع پر بھی انسانیت کے دشمن پیسہ کمانے کی دھن میں ہیں۔ کیا اخلاقی گراوٹ کی اس سے بڑی کوئی اور مثال مل سکتی ہے؟ ایسی خطرناک بیماریوں کی تشخیص ضروری ہوتی ہے لیکن یہاں حال یہ ہے کہ تشخیص بھی بلیک ہو رہی ہے۔
عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کے غریب عوام اس لیے خوش تھے کہ 72 سال تک اشرافیہ کی لوٹ مار کے بعد پہلی بار ایک مڈل کلاسر کی حکومت آئی ہے۔ یہ حکومت عوام کے لیے کچھ کرے گی لیکن عوام کو مایوسی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ یہ درست ہے کہ حکومت کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھنے والی اپوزیشنی اشرافیہ عمران حکومت پر ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ کرسکی۔ یہ بڑی مثبت بات ہے لیکن سیاسی اور انتظامی نااہلی سے عوام کا جینا حرام ہو گیا ہے اور صرف مہنگائی نے عوام کا خون نچوڑ لیا ہے۔ یہ صورت حال اپوزیشن کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں اور اپوزیشن اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے خلاف ایک زبردست پروپیگنڈا محاذ کھولے بیٹھی ہے۔
کورونا بلاشبہ ایک لاعلاج بیماری کی طرح ساری دنیا کو تہہ و بالا کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ایک سوال ذہن میں فطری طور پر آتا ہے کہ کیا کورونا پہلی بار دنیا میں متعارف ہوا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ بیماری پرانی اور جانی پہچانی ہے۔ تو پھر ہمارے میڈیکل کے عمائدین اب تک کیا سو رہے تھے، اس کا علاج کیوں دریافت نہیں کیا جا سکا؟ معلوم ہوا ہے کہ اس بیماری کا وائرس 30 سینٹی گریڈ گرمی میں خود بخود مر جاتا ہے اور اپریل میں ہی ہماری گرمی 40 سینٹی گریڈ کو چھوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اپریل میں عوام کو اس عذاب سے چھٹکارا مل جائے گا لیکن محققین کو اس بیماری کی ویکسین کی تیاری کو اپنی پہلی ترجیح بنانا چاہیے۔