دنیا کا نظام اتنا بگڑا ہوا ہے، حالات اس قدر خراب ہیں اور جنگوں کا خوف اتنا شدید ہے کہ انسان کا سکون غارت ہو گیا ہے اگر اس خوفناک فضا کو نہ بدلا گیا تو ڈر ہے کہ آدھی دنیا نفسیاتی مریض بن جائے گی۔ اس قسم کی صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک ادارہ بنایا گیا جس کا نام نامی اسم گرامی اقوام متحدہ رکھا گیا۔
اول تو اس ادارے کے فیصلے انڈر پریشر ہوتے ہیں۔ دوسری کمزوری یہ ہے کہ جو بھی غلط سہی فیصلے ہوتے ہیں، ان پر عمل درآمد کی کوئی مشینری اقوام متحدہ کے پاس ہے نہ اس کا کوئی متبادل موجود ہے، اس لیے یہ ادارہ محض ایک شو پیس بنا ہوا ہے۔ عشروں پرانے تنازعات ابھی تک حل طلب ہیں۔ مثال کے طور پر مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین ہمارے سامنے ہیں دونوں ملکوں میں لاکھوں انسان اب تک ہلاک اور دربدر ہو کر ایک اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔
دنیا کے سرپرست بے حسی سے اس اذیت ناک صورتحال کو دیکھ رہے ہیں، لیکن اصلاح احوال کی کوششوں کا فقدان ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں عوام اس اذیت کے ساتھ زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں۔ بااختیار لوگوں کو ان کربناک حالات پر ذرہ برابر افسوس نہیں۔ اس بات کا احساس تک نہیں ہے۔
طاقت کی برتری کا جوکلچر ساری دنیا میں نافذ ہے وہ کلچر اقوام متحدہ میں بھی موجود ہے۔ بڑی طاقتیں جو چاہتی ہیں وہی ہوتا ہے قانون اور انصاف کھڑا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اہل سیاست ظالم ہی نہیں بلکہ اس قدر بے حس ہیں کہ انھیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔ دنیا کے انسانوں کو اس اذیت ناک زندگی سے نجات دلانے کے بجائے ان کی اذیتوں میں اور اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ساری اذیتیں ان مظالم کی ایک بڑی وجہ انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہے۔ کشمیر میں ہندو مسلمان کا مسئلہ ہے، اس تقسیم کی وجہ سے اب تک 70ہزار کشمیری جاں بحق ہوگئے ہیں اور یہ جان لیوا کھیل اب بھی جاری ہے۔ مذہب اور قومیت کو نفرتوں کا وسیلہ بنا لیا گیا ہے اور انتہائی بے حسی سے مذہب اور قومیت کو سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس اذیت ناک صورتحال سے دنیا کو نجات دلانے کے لیے اہل فکر، اہل دانش کردار بلکہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کو بے حسی کا سانپ سونگھ گیا ہے۔ 1933میں جب ہٹلرکے ظلم بڑھنے لگے اور دنیا کے سر پر جنگوں کا خطرہ منڈلانے لگا تو دنیا کے اہل دانش، ادیب شاعر پیرس میں جمع ہوئے اور بدترین صورتحال کے خلاف موثر آواز اٹھائی جس کی وجہ سے بدی کی طاقتیں مزید آگے بڑھنے سے رک گئیں لیکن چونکہ بدی کی طاقتیں زیادہ مضبوط تھیں لہٰذا وہ دوسری عالمی جنگ کو شروع کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔
آج کی نامنصفانہ اور سفاک دنیا پر نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان دور جاہلیت میں پہنچ گیا ہے اور اسی کلچر کو فروغ دے رہا ہے جو دور جاہلیت کی پہچان تھا۔ آج کا انسان اپنے آپ کو تاریخ کا مہذب ترین انسان سمجھتا ہے لیکن جب کشمیر، فلسطین وغیرہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ مہذب انسان دنیا کی تاریخ کا وحشی ترین انسان دکھائی دیتا ہے۔
ہم نے ان بدتر حالات کی ذمے داری انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم پر ڈالی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے بدترین حالات انسانی تقسیم ہی کا نتیجہ ہیں لیکن ان کے پیچھے جو ریگولیٹری طاقت ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کی ہے۔ دولت جمع کرنے کی ہوس کے سینگ پر کھڑے اس نظام نے درحقیقت انسان کو حیوان سے بدتر بنا کر رکھ دیا ہے۔
اس نظام کا ایک بہتر متبادل 1917 میں مارکس نے پیش کیا تھا لیکن مارکس کے متعارف کردہ نظام میں دولت کی بالادستی کو ختم کردیا گیا تھا جس کی وجہ دولت کے غلاموں نے اس نظام کے خلاف سازشیں شروع کردیں اور دنیا کے سادہ لوح مذہب پرست عوام کے ذہنوں میں یہ فتور پیدا کردیا کہ مارکس کا متعارف کردہ نظام مذہب کے خلاف ہے اور طرح طرح کی سازشوں کے ایسے جال بچھا دیے کہ مارکس کا متعارف کردہ نظام سرمایہ داروں کی سازشوں کا مقابلہ نہ کرسکا اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔
ہر نظام میں اچھائیوں کے ساتھ کچھ کمزوریاں بھی ہوتی ہیں، مارکسزم میں بھی اچھائیوں کے ساتھ کچھ کمزوریاں بھی تھیں لیکن مارکسزم نے نجی ملکیت پر پابندی لگا کر برائیوں کی جڑ کاٹ دی تھی اور مارکس کی اس "غلطی" نے سرمایہ پرستوں کو اس قدر مشتعل اور مارکسزم مخالف بنا دیا کہ ہشت پہلو سازشوں کے ذریعے اس نظام کو ختم کردیا گیا۔ آج سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے، جنگوں اور جنگوں کے خوف نے انسانوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ دولت کو خدا بنانے والے اس نظام نے انسان کو حیوان سے بدتر بنا دیا ہے۔ آج دنیا جہنم بنی ہوئی ہے تو اس کی ذمے داری سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پیدا کردہ انسانی تقسیم پر عائد ہوتی ہے جس سے نجات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔