یہ غالباً 1969 کا سال تھا یحییٰ خان کا دور تھا اور جگہ جگہ ماورائے اسلامی عدالتیں تھیں سرمایہ دار اور صنعتکار کوشش کر رہے تھے کہ گرفتار سیاسی کارکنوں اور مزدوروں کو جتنا زیادہ ہو ٹائٹ رکھا جائے۔
گرفتار شدہ قیدیوں کو صبح 4بجے ڈنڈے مارکر اٹھایا جاتا تھا، ان اٹھائے جانے والے قیدیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ہوتے تھے جن میں بی اے اور ایم اے پاس بھی ہوتے تھے، کچھ ایم فل بھی ہوتے، انھیں عام قید کی سزا کے ساتھ کوڑوں کی سزا بھی دی جاتی جب ان تعلیم یافتہ قیدیوں کو رات چار بجے ڈنڈے مار کر اٹھایا جاتا تو ان کی خدمت میں چائے بغیر دودھ کے اور"کانجی" پیش کی جاتی۔ کانجی ایک طرح سے آٹے کی پتلی چپاتی ہوتی تھی۔
اس شاہی ناشتے کے بعد قیدیوں کو ان کے کام کی طرف ہانک دیا جاتا جو روز صبح کی روٹین تھی۔ جس میں پڑھے لکھے ان پڑھوں کی کوئی تمیز نہیں تھی۔ اسی سے ملتا جلتا لنچ اور ڈنر ہوتا تھا۔ وارڈ میں ٹاٹ کی اتنی پتلی چٹائیاں ہوتی تھیں کہ اگر نیند میں ایک قیدی کروٹ لے تو وہ دوسرے کے ٹاٹ پر چلا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے یہی صورتحال آج بھی ہے۔
اب ذرا دوسری طرف آئیے پہلی طرف کے "مجرم" ہڑتالوں وغیرہ کے گنہگار ہوتے، دوسری طرف کے مجرم اسمگلر، چور اور ڈاکو ہوتے۔ انھیں صبح ہوتے ہی گرم پانی، صابن، تولیہ اور ناشتے میں ڈبل روٹی، چائے، انڈہ وغیرہ۔ یہ پرانی باتیں ہیں اب صورتحال یہ ہے کہ اصلی تے وڈے قیدیوں کو اے اور بی کلاس ملتی ہے پلنگ یا چارپائی خوبصورت بستر وغیرہ گرمی کا دور ہو تو اے سی سردی کا دور ہو تو ہیٹر، خدمت کے لیے ایک عدد بہشتی، گھر سے اعلیٰ درجے کا کھانا، پھل، مٹھائی، چائے اور دیگر سہولیات۔ یہ نعمتیں ان کچے اور پکے قیدیوں کے لیے جو اربوں روپوں کی کرپشن کے الزام میں قید ہیں۔
کیا ہم ان دونوں نمونوں کو جدید اور قدیم کا فرق کہیں یا دولت مندی اورغربت کا فرق؟ آج تو عالم یہ ہے کہ ملزمان کی طبی نگہداشت کے لیے ڈاکٹروں کی ٹیم، یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرکار تبدیلی آب و ہوا کے لیے تشریف لاتے ہیں، اس کے مقابلے میں گٹر زدہ گندے وارڈ، ناقص اور غیر معیاری غذا الامان الحفیظ۔ وہ مزدوروں کی ہڑتالوں وغیرہ کے مجرم ہوتے تھے اور آج جو ملزمان متعارف ہو رہے ہیں۔
وہ اربوں ڈالر کے کرپشن کے مرتکب سر سے پیر تک عوام کے غدار کوئی محترم قیدی ارب پتی سے کم نہیں۔ یہ عوام کے رہنما ہیں یہ اس ملک کی شان ہیں، یہ مجرم جب اپنے محلوں سے عدالتوں کے لیے نکلتے ہیں تو "کارکنان" ان کی کروڑوں کی گاڑیوں کو گلاب سے لاد دیتے ہیں۔ پولیس کے جوان انھیں دیکھ کر سلیوٹ کرتے ہیں۔ یہ فرق ہے عام میں اور خاص میں۔ ایسا لگتا ہے ہماری آبادی کا ایک حصہ نوابین کا ہے دوسرا حصہ غربا کا۔ زندگی کے اس ڈگر پر ہمارا معاشرہ 72 سالوں سے چل رہا ہے۔ یہ تقسیم قدرتی نہیں بلکہ ایلیٹ کی بنائی ہوئی ہے اور ایلیٹ اور اس کے دلال اس مصنوعی تقسیم کو انسان کی قسمت کا نام دے کر غریب عوام کو صدیوں سے بے وقوف بنا رہے ہیں۔
اس کلچر کو اتنا مضبوط کر دیا گیا ہے کہ اس کلچر سے متاثر ہونے والا غریب بھی سچ سن کر بوکھلا جاتا ہے۔ اس ملک پر 72 سال تک اشرافیہ کی حکومت رہی غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا گیا۔ یہ سلسلہ ابھی سو سال بھی چل سکتا تھا لیکن بیچ میں ایک ڈراؤنا خواب آگیا۔ اس خواب نے اگرچہ پورے کھیل کو ڈسٹرب کر دیا ہے ذرا کمزور دکھائی دینے والی اشرافیہ ایک بار پھر انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھی ہے اور جسم جھاڑ کر دوبارہ تیار ہو رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کا اہل طبقہ کیا کر رہا ہے۔
اہل فکر طبقہ اس فکر میں مرا جا رہا ہے جمہوریت کمزور ہو رہی ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ عوام اس جمہوریت کو اصلی جمہوریت سمجھ رہے ہیں اور کیا 72 سال کے دوران جو جمہوریت تھی وہ اصلی تھی یا جعلی؟ کیا عوام نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے؟اس وقت اصل مسئلہ یہ ہے کہ اشرافیہ گھبرائی ہوئی ہے حالات اس کے خلاف ہیں عوام اس کے خلاف ہیں اس نے ان حالات سے مایوس ہوکر ایک نئی اور موثر چال چلی ہے وہ یہ کہ عوام میں محترم طبقے کو ساتھ ملالیا ہے اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عوام کی بھاری اکثریت اس فنکاری سے واقف ہو رہی ہے جو اشرافیہ کو پریشان کیے ہوئے ہے اور اشرافیہ سارا زور مذہبی سیکٹر کو ساتھ رکھنے بلکہ آگے رکھنے میں لگا رہی ہے اس کوشش میں اشرافیہ اگر کامیاب ہوتی ہے تویہ کوئی نیک فال نہیں ہوگا۔ عوام کو دھوکہ دینے کا سلسلہ سالوں پر پھیلا ہوا ہے اور بدقسمتی سے یہ کھیل جمہوریت کے نام پر کھیلا جا رہا ہے۔
اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ دانشور طبقہ ان اربوں روپوں کی کرپشن کو نظرانداز کرکے اشرافیائی جمہوریت کی دم سے چمٹا ہوا ہے۔ یہ کس قدرافسوس کی بات ہے کہ برسوں سے یہ سامری جادوگر عوام کو مسمرائز کر رہے ہیں اور اشرافیہ کے طوطے کی جان آج بھی جمہوریت کے طوطے میں بند ہے بدقسمتی سے میڈیا بھی دہری پالیسی پر چل رہا ہے۔ عوام اس عرصے میں یقینا جمہوریت اور اس کی برکات سے واقف ہو رہے ہوں گے ضرورت اس بات کی ہے کہ "خواص" بھی اب اس فراڈ جمہوریت کے جال سے عوام کو واقف کرائیں تاکہ یہ فسوں ٹوٹ سکے۔
بلاشبہ اس دور میں جب کہ ہر طرف جمہوریت کا بول بالا ہے کسی بھی قسم کی آمریت پسندیدہ نہیں لیکن ہمارے حکما کا یہ فرض ہے کہ وہ عوامی جمہوریت اور اشرافیائی جمہوریت میں نہ صرف فرق کریں بلکہ اس فرق سے عوام کو بھی آگاہ کریں۔ اس طویل جمہوری عرصے میں کم ازکم جمہوریت کا اتنا فائدہ تو ہو کہ لوگوں کے گھروں کے آگے کچرے کے ڈھیر تو نہ لگے ہوں اس جمہوریت پر سر دھڑ کی بازی لگانے والے یہ تو دیکھیں کہ کیا ان 72سالوں میں مزدوروں کا نمایندہ، کسانوں کا نمایندہ، اس جمہوریت کے سفر میں ساتھ رہا ہے؟