موجودہ حکومت کے آنے پر جو مثبت بڑا کام ہوا ہے، وہ احتساب کا ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ 72 سال سے ملک کو اپنی جاگیر سمجھ کر جس طرح لوٹتی رہی ہے، اس کی مثال پسماندہ ملکوں میں نہیں مل سکتی۔ لوٹ مار کا یہ عالم رہا ہے کہ اربوں روپوں کو بچانے کے لیے ایرے غیروں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈال دیے گئے۔
قومی دولت کی لوٹ مار کے اربوں روپے جعلی اکاؤنٹس میں ڈال کر انھیں بچانے کی کوشش کی گئی۔ اس بے لگام لوٹ مار کی وجہ ہمارا ملک دنیا میں بدنام ہوا اور عوام اشرافیہ سے اس قدر بدظن ہو گئے کہ اس کا نام سننا پسند نہیں کرتے۔ اس بے لگام لوٹ مار پر نیب نے لٹیری اشرافیہ کے خلاف ریفرنسز داخل کیے۔ ملک کے وزیر اعظم سمیت مسلم لیگ (ن) کے درجنوں لیڈروں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے اور کچھ کو سزائیں بھی دی گئیں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جیل کو اشرافیہ نے فائیو اسٹار ہوٹل بنا کر رکھ دیا ہے۔
کرپشن کے الزامات میں سابق صدر پاکستان اور ان کی بہن اس وقت جیل میں ہیں یعنی سابق وزیر اعظم اور سابق صدر پر اربوں روپوں کرپشن کے الزامات ہیں۔ کسی شخص پر خواہ وہ صدر ہو یا وزیر اعظم مختلف حوالوں سے الزامات لگتے رہتے ہیں لیکن محض الزامات لگنے سے کسی کو مجرم نہیں کہا جا سکتا، جب تک کہ ملزم پر جرم ثابت نہ ہو جائے ملزم کو بے قصور ہی سمجھا جاتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں پر کرپشن کے الزامات اور سزاؤں سے سیاست اس قدر بدنام ہو گئی ہے کہ عوام سیاست کو گالی سمجھنے لگے ہیں۔ ہماری عدلیہ نے ملزموں کو جلد انصاف فراہم کرنے کے لیے اسپیشل کورٹس قائم کی ہیں جو کیسوں کو عشروں تک گھسیٹنے کے بجائے جلد از جلد فیصلے کر رہی ہیں۔ اس انتظام کی وجہ سے جہاں بے گناہ لوگوں کو جلد انصاف مل رہا ہے وہیں مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچانے میں بھی انصاف ہو رہا ہے۔
نیب ایک قومی ادارہ ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ نیب کی وجہ سے بے قصور ملزم جلد رہا ہو رہے ہیں تو مجرم اپنی سزا کو پہنچ رہے ہیں۔ اس حوالے سے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ ہمارے ملک کی سیاسی اشرافیہ کی گرفت ملک کے ہر شعبے پر اتنی مضبوط رہی ہے کہ اشرافیہ کی طرف کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔
اب بھی کرپشن کے ملزمان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح الزامات سے نجات حاصل کر کے عوام کو لوٹنے کے لیے دوبارہ ان کے سروں پر مسلط رہیں۔ ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام عشروں تک نافذ رہا ہے اور جاگیردارانہ نظام میں پولیس حکومت کی ملازم نہیں رہتی بلکہ ملازم ہوتی ہے اشرافیہ کی۔ مقامی پولیس کے سربراہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صبح وڈیروں کے گھر جا کر انھیں سلام کرنے سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔ یہ جاگیردارانہ کلچر آہستہ آہستہ سرمایہ دارانہ نظام میں بھی موثر ہو چکا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ پولیس پر حکومت کرتا ہے پولیس اس کے اشاروں پر چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس اس کلچر میں بے لگام ہو جاتی ہے۔ ویسے تو یہ کلچر قیام پاکستان کے ساتھ ہی روبہ عمل رہا ہے لیکن جب سے سیاسی اشرافیہ اقتدار میں آئی ہے یہ کلچر مستحکم ہوتا رہا ہے اور پولیس حکمرانوں کے تابع رہی ہے اور وہ وہی کام کرتی ہے جس کا حکم حکمران دیتے ہیں۔
ملک میں پولیس کے اس کلچر کی وجہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ہوا جس میں 14 سیاسی کارکنوں کو سرعام جان سے مار دیا گیا۔ سیاسی انجینئرڈ کلچرکی وجہ آج تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔ عوام حکمرانوں سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ 14 سیاسی کارکنوں کے قاتلوں کے خلاف اب تک کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ جب تک اشرافیہ برسر اقتدار رہی قانون اور انصاف کو غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ 14 سیاسی کارکنوں کے قتل کو اب چھ سال ہو رہے ہیں اب تک قاتلوں کے خلاف کارروائی نہ ہونا انجینئرڈ قانون کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟
دو بڑی سیاسی جماعتوں کی حکمرانی کے دور میں یہ تماشے ہوتے رہے ہیں۔ عوام دشمن اور کرپٹ اشرافیہ کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ کوئی حکومت اس کے خلاف احتساب کا ڈنڈا گھمائے گی۔ کیا اشرافیہ کی قانون شکنی کا کسی ادارے نے نوٹس لیا؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی کیا 14 کارکنوں کے قتل کا احتساب انجینئرڈ احتساب کہلا سکتا ہے؟ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب ایک مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں اور پنجاب پولیس نے انھی کی جماعت کے 14 کارکنوں کو بہیمانہ طور پر قتل کر دیا۔ قادری صاحب 6 سال سے چیخ رہے ہیں کہ ان کے 14 کارکنوں کے قتل کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا جائے لیکن ان کی شکایت کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
کیا یہ کیس ازخود نوٹس لینے کے زمرے میں آتا ہے؟ قانون کو اندھا بہرہ اور گونگا اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ملزموں اور مجرموں میں امتیاز نہیں برتتا۔ اگر قانون اور انصاف امتیازی ہو جائے تو ملک انارکی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ غالباً ہمارے چیف جسٹس صاحب نے اسی پس منظر میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ "سیاسی انجینئرڈ احتساب کا بڑھتا ہوا تاثر خطرناک ہے۔ " ہمارے حکمرانوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ چیف جسٹس صاحب کے خدشات کو دور کرنے کے لیے احتساب کو سیاسی آلائشوں سے پاک کریں۔