غلام داری نظام میں غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں خریدار ان منڈیوں میں آتے اور اپنی مرضی اور پسند کا غلام خرید کر لے جاتے اور اس سے جو چاہے کام لیتے غلاموں کو اف کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، یہ سلسلہ بیسویں صدی تک جاری رہا۔ عموماً غلاموں کا تعلق افریقہ سے ہوتا کیونکہ افریقن بہت محنتی اور فرمانبردار ہوتا تھا۔
غلامی کے دور کو دنیا کا بدترین دور کہا جاتا ہے۔ غلام ان منڈیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح خریدے اور بیچے جاتے تھے عموماً غلاموں سے جانوروں کا سارا کام لیا جاتا مغرب کی منڈیوں میں غلاموں کے دام اچھے ملتے اسے ہم بدقسمتی کہیں یا زمانے کے تقاضے کہ مسلم ملکوں میں بھی یہ کاروبار رہا البتہ غلاموں کو آزاد کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی جس کا مقصد غلامی کو ناپسندیدہ ماننا ہوتا تھا۔
مسلم اکابرین بھی اپنی ضرورت کے مطابق غلام خریدتے اور آزاد بھی کرتے تھے ہمارے اکابرین غلاموں کو آزاد کرنے کو نیکی کا کام مانتے تھے۔ افریقہ اس حوالے سے سربلند علاقہ اس لیے مانا جاتا تھا کہ افریقہ میں غربت کی کوئی انتہا نہ تھی اس علاقے میں یہ کام بہت مشہور اور فائدہ مند مانا جاتا تھا جس کے پاس زیادہ غلام ہوتے تھے اسے بڑا آدمی مانا جاتا تھا۔ حضرت بلال حبشیؓ بھی ایک خریدے ہوئے غلام تھے۔ ان کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ بہت خوش الحان تھے ان کی آواز میں اتنی خوش الحانی ہوتی تھی کہ ہمارے پیغمبرؐ نے انھیں مسجد میں اذان دینے کی ذمے داری سونپی تھی، جب بلال حبشیؓ اذان دیتے تو ان کی اذان سننے کے لیے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے۔ پیغمبر اسلامؐ بھی بلال حبشی ؓ کی خوش الہانی کو بہت پسند فرماتے تھے۔
غلامی کا دور کہا جاتا ہے ختم ہو گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ غلام داری نظام کے اوصاف مختلف شکلوں میں آج بھی جاری ہیں۔ مثلاً ہماری انڈسٹری جس میں کام کرنے والوں کے کوئی حقوق نہیں ہیں، مزدوروں کے حقوق ٹھیکیدار کے پاس رہن ہوتے ہیں۔ عام طور پر صنعتی مزدور غلاموں کی طرح زندگی گزارتے ہیں آج کے ٹھیکیداری نظام میں مزدور کا انتخاب ٹھیکیدار کرتا ہے اس کی اجرت بھی وہی طے کرتا ہے اس کا تقرر (اگر اس نظام میں تقرر اور دوسرے تمام حقوق ٹھیکیدار کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ مزدوری، مزدور کے بجائے گھر کے کسی فرد کو دی جاتی ہے۔ )
ہمارے ملک میں سرمایہ داری کو کلی اختیار دیے گئے ہیں سارا کام ٹھیکیدار انجام دیتا ہے۔ ایوب خان کے دور میں تو مالکان پرائیویٹ جیلیں تک بناتے رہے مالکان معمولی غلطیوں کی سزا دینے کے لیے پرائیویٹ جیلیں تک بناتے رہے مالکان مزدوروں کو سزائیں دے کر ان جیلوں میں بند کردیتے تھے۔
امریکا نے بھاری امداد کے بدلے میں ترقی پسند کارکنوں اور رہنماؤں پر سختیاں کرنے کا "حکم" دے رکھا تھا لہٰذا ایوب خان کی طرف سے صنعتکاروں کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ مزدوروں کے خلاف جو چاہیں سلوک کریں۔ سو مزدوروں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے، جیلوں میں مالکان کی طرف بھی سخت سزائیں دی جاتی تھیں جس کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ یہی حال آج کے مزدوروں کا ہے وہ اگر مالکان سے شکایت کرتے تھے تو انھیں نوکریوں سے نکال دیا جاتا تھا۔ آج کے ٹھیکیداری نظام میں ٹھیکیدار کے اختیارات مالکوں سے زیادہ ہیں۔
1972 میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی بھٹو صاحب کے دل کش نعروں میں ایک نعرہ مزدور، کسان راج کا بھی تھا لیکن ہوا یہ کہ اقتدار سنبھالنے کے ایک سال کے اندر اندر دو بار مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں جن میں درجنوں مزدور ہلاک ہوگئے۔ مزدور کسانوں کے راج کی بجائے مزدوروں کی لاشوں کا عوام کو تحفہ ملا۔ آج وہی مزدور ٹھیکیداری نظام میں غلاموں کی زندگی گزار رہا ہے۔
ہمارے دیہی علاقوں میں بے روزگاروں کی فوج موجود ہوتی ہے ٹھیکیدار دیہی علاقوں میں جاکر مزدور بھرتی کرتے ہیں ان کی اجرت کا تعین ٹھیکیدار خود کرتا ہے دیہی علاقوں سے مزدوروں کو کراچی لایا جاتا ہے اور انھیں ملوں ہی میں رکھا جاتا ہے اگر مشینوں پر ان کی ضرورت ہوتی ہے تو آدھی رات کو مزدور کو نیند سے جگا کر مشینوں پر کھڑا کردیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام میں کوئی قانون نہیں ہوتا ٹھیکیدار کی مرضی ہی قانون ہوتی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ملوں میں ٹریڈ یونین ہیں لیکن یونینوں کو ٹھیکیداری نظام میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوتی ٹریڈ یونین مالکان سے مل کر ٹھیکیداری نظام کو چلاتے ہیں۔
ہر ملک کی طرح ہمارے ملک میں بھی ایک لیبر ڈپارٹمنٹ ہے جو مالکان کی مرضی پر چلتا ہے لیبر ڈپارٹمنٹ میں مزدوروں کی ایک نہیں چلتی۔ سارے اختیارات مل مالکان کے تابع ہوتے ہیں اگر کسی مل یا کارخانے میں مزدور اپنے مطالبات کے لیے ہڑتال کرتا ہے تو لیبر ڈپارٹمنٹ عموماً مزدوروں کی ہڑتال کو غیر قانونی قرار دے کر متحرک مزدوروں کو نوکریوں سے نکال دیتے ہیں اس ظلم کا کوئی پرسان حال نہیں چونکہ ملوں میں پاکٹ یونین مزدوروں کی نمایندگی کرتی ہیں لہٰذا پاکٹس یونینیں مزدوروں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتیں یوں مزدور غلام بنے رہتے ہیں۔