دنیا میں ہر بڑے پیشے میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونینز بنی ہوتی ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے اس قدر پسماندگی میں گرا ہوا ملک ہے کہ یہاں پاکٹ یونینز تو ہر جگہ ہیں لیکن نمایندہ ٹریڈ یونین کا دور دور تک پتہ نہیں۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین کی تاریخ بڑی دلچسپ تاریخ ہے۔
پاکستان میں 1973 تک کسی نہ کسی طرح ٹریڈ یونین کا نام زندہ تھا لیکن یہ ایک دلچسپ المیہ ہے کہ مزدورکسان راج کے حامیوں کے دور میں پاکستان میں ٹریڈ یونینز کا ایسا خاتمہ ہوا کہ آج تک ٹریڈ یونینز زندہ نہیں ہو سکیں۔ ایوب خان کے دور میں مزدوروں پر جو مظالم ہوئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان مظالم کی وجہ یہ تھی کہ امریکا نے پاکستان میں سوشل ازم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر پاکستان کو بھاری مالی امداد دینا شروع کی لیکن امریکا کی شرط یہ تھی کہ ٹریڈ یونین کو ختم کر کے مزدور طبقے کو سختی سے کنٹرول کیا جائے۔
ایوب خان نے امریکا کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مزدوروں پر ایسے ستم ڈھائے کہ کارخانوں میں نجی جیلیں بنائیں جہاں مزدوروں کو سزائیں دے کر رکھا جاتا تھا۔ ٹریڈ یونین کا نام لینا جرم تھا۔ مزدور لاوارث تھے لیکن ایسے کٹھن وقت میں بھی کچھ مزدور تنظیمیں اور رہنما فعال تھے ان میں متحدہ مزدور فیڈریشن سمیت دیگر تنظیمیں قابل ذکر ہیں ۔ ایوبی آمریت کے خلاف یہ مزدور تنظیمیں سرگرم تھیں اور مزدوروں کو منظم کرنے میں مصروف تھیں، مشرقی پاکستان کی کچھ مزدور تنظیموں سے بھی ان کا تعلق تھا اور ٹریڈ یونین کے حوالے سے مشرقی پاکستان کی قیادت سے صلاح و مشوروں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
ایوب حکومت نے امریکا کی اقتصادی امداد جوکولمبو پلان کے تحت پسماندہ ملکوں کو مل رہی تھی سے ملک میں صنعتکاری کا سلسلہ شروع تو کیا لیکن مزدور طبقے کو اس قدر دبا کر رکھا گیا کہ مزدور اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتے تھے، اس ظالمانہ دور میں مشرقی پاکستان کے مزدور رہنما مولانا بھاشانی مزدوروں کے حقوق کے لیے سخت لڑائی لڑ رہے تھے۔
مولانا نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ تھے اور نیشنل عوامی پارٹی مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ یہ غالباً 1968 کی بات ہے مولانا بھاشانی کراچی آئے اور نیپ کے مقامی رہنما مسیح الرحمن کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔ مولانا نے ایک دن ہم سے کہا کہ لانڈھی کے مزدوروں کا ایک جلسہ کراؤ۔ ہم نے کنیز فاطمہ، علاؤالدین عباسی اور وحید صدیقی کے ساتھ لانڈھی میں ایک ملز کے گیٹ پر ایک جلسہ کیا اس جلسے کے بعداس ملز کے مزدور جلوس کی شکل میں لانڈھی انڈسٹریل ایریا کے لیے نکلے اور چار گھنٹوں میں پورا انڈسٹریل ایریا بند کروا کر مزدوروں کے بڑے جلوس کی شکل میں 89 اسٹاپ کے میدان میں پہنچے جہاں مولانا بھاشانی جلسے سے خطاب کرنے والے تھے۔
کوئی پچاس ہزار مزدور اس یادگار جلسے میں شریک تھے۔ جلسہ اتنا بڑا تھا کہ مولانا بھاشانی خوش ہو گئے لیکن المیہ یہ رہا کہ مزدوروں کا استحصال ختم نہ ہوا بلکہ انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ مزدور کسان راج کے دعوے دار مزدوروں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر اتر آئے۔ بہت سارے مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔
مولانا بھاشانی مختلف جلسوں سے خطاب کر کے ڈھاکا واپس چلے گئے۔ بھٹو صاحب نے مزدوروں کو آسمان پر چڑھایا تھا، اب جب مزدور اینگری ہو گئے تو سیکڑوں کے حساب سے پکڑے جانے لگے اور گرفتار مزدوروں کو جیلوں میں ڈنڈا بیڑی پہنائی جانے لگی۔ ڈنڈا بیڑی پہنے مزدوروں کی تصویریں میڈیا میں آنے لگیں۔ یہ تھا مزدور کسان راج؟یہ تو ہوئیں پرانی باتیں اب حال یہ ہے کہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں نمایندہ یونینزکا دور دور تک پتہ نہیں۔ ہر طرف پاکٹ یونینزکا راج ہے، مزدوروں کا حال یہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام کا جواء کندھوں پر رکھے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں۔
عشروں کی لگاتارکوششوں اور بے بہا قربانیوں کے بعد مزدوروں نے کچھ کامیابیاں حاصل کی تھیں جن میں یونین سازی کا حق، ہڑتال کا حق، سودے کاری کا حق یہ سارے حقوق طاق نسیاں پر رکھ دیے گئے، اب حال یہ ہے کہ مزدورکارخانہ دارکا ملازم نہیں بلکہ ٹھیکیدارکا ملازم ہے اور اس کی نوکری پکی ہے نہ قانون کے مطابق اسے ٹریڈ یونین حقوق حاصل ہیں۔
ٹھیکیداری نظام مزدوروں سے نکل کر وائٹ کالر یونین تک پہنچ گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھیکیداری نظام بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑا۔ ٹریڈ یونین میں ایسی قیادت موجود نہیں جو کم از کم ٹھیکیداری نظام ہی کے خلاف جدوجہد کرے۔ بھٹو صاحب مزدور کسان راج لانے کی نوید سناتے رہے لیکن مزدور رہنماؤں کو برسوں کے لیے جیلوں میں ٹھونس کر اور ڈنڈا بیڑیاں پہنا کر مزدور کسان راج کا مذاق اڑایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے کیا مزدور راج نہ سہی مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق ہی دلا دیے جائیں تو پیپلز پارٹی کی مزدوروں کے ساتھ بڑی مہربانی ہو گی۔ ٹھیکیداری نظام و ڈیرہ شاہی نظام سے بدتر نظام ہے مالکوں نے ملوں کارخانوں کو ٹھیکداروں کے حوالے کر دیا ہے اب مزدور مالکان کا نہیں ٹھیکیداروں کا ملازم ہے جس کے کوئی قانونی حقوق نہیں ٹھیکیدار کی مرضی ہے جب تک چاہے مزدورکو رکھے جب چاہے نکال باہرکرے۔
کیا پیپلز پارٹی کی حکومت مزدوروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ نہیں کر سکتی۔ کراچی سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے یہاں سارے ملک سے مزدور روزگار کے لیے آتے ہیں۔ اس صنعتی شہر میں مزدور قوانین کا نام نہیں ہر طرف ٹھیکیداری نظام کا بول بالا ہے پیپلز پارٹی کے رہنما وقت نکال کر غریب مزدوروں کے مسائل پر غورکریں۔