بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع سونی پت کے گاؤں مانک ماجرا میں مقامی مسجد کے پیش امام محمد عرفان اور ان کی اہلیہ یاسمین کو ہندو جنونیوں نے مسجد سے ملحقہ ان کے گھر میں گھس کر تیز دھار آلے سے شہید کردیا۔ دونوں کی شادی ایک سال قبل ہوئی تھی۔ گاؤں کے ایک شخص محمد نصیب نے بتایا کہ وہ صبح فجر کی نماز پڑھنے گیا تو مسجد کا دروازہ خلاف معمول بند تھا۔
محمد نصیب نے بتایا کہ اس نے عرفان کو آوازیں دیں لیکن کوئی جواب نہ آیا تو اس نے گاؤں کی پنچایت کو اطلاع دی جب دروازہ کھولا گیا تو عرفان اور اس کی بیوی یاسمین کی لاشیں خون میں لت پت پڑی ہوئی تھیں۔ پولیس کے مطابق دونوں میاں بیوی کے جسم پر تیز دھار آلے کے 15سے 20 نشانات دیکھے گئے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ پیش امام کو ہندو جنونیوں کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔
عرفان اور یاسمین کا بہیمانہ قتل ان ہندو جنونیوں کا کارنامہ ہے جو حکومت کی ہندوتوا مہم سے متاثر ہوکر اس قسم کی وحشت و بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھارت میں مذہبی جنونیت کا وہ حال نہیں تھا جو بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہو رہا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت کے عوام نے ایک ایسی جماعت اور ایک ایسے وزیر اعظم کو منتخب کیا ہے جس کا ماضی گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے داغ دار ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت ہندوستان پر ہندو مت کی بالادستی چاہتے ہیں۔ وہ ہندوستان کو ایک ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
ہندوستان میں 88 فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے صرف بارہ فیصد مسلمان ہندوستان میں بستے ہیں جن کی مجموعی تعداد 22 کروڑ بتائی جاتی ہے یوں مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مانے جاتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی لیکن یہ ایک ہزار سال ہندو مسلمانوں کے درمیان مذہبی رواداری کا عرصہ مانے جاتے ہیں۔ تقسیم کے بعد جب ہندوستان پر ہندو حکومت قائم ہوئی تو ایک ہزار سالہ مذہبی رواداری کا تیا پانچا ہوگیا اور تقسیم کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کی جو آگ بھڑک اٹھی تھی کہا جاتا ہے اس آگ میں 22 لاکھ مسلمان جل گئے۔ یہ وہ وحشت اور بربریت تھی جو مذہب کے نام پر ہندوستان کا مقدر بنی۔ فرقہ وارانہ سوچ جہاں کہیں فروغ پاتی ہے وہاں آگ اور خون لازمی ہوجاتے ہیں۔
ہندو مذہب کا شمار دنیا کے قدیم مذاہب میں ہوتا ہے جس کے آثار دنیا کے مختلف علاقوں میں سنگ تراشی کی نکل میں آج تک موجود ہیں۔ ہندوستان پر مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں بھی عموماً مذہبی رواداری کے نشانات ملتے ہیں اس دور کو پسماندگی کا دور کہا جاتا ہے لیکن اس پسماندگی کے دور میں مذہبی رواداری کا کلچر بہت مضبوط تھا لوگ مل جل کر زندگی گزارتے تھے لیکن یہ عجب بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جب پسماندگی سے چھٹکارا ملنے لگا تو مذہبی آسیب انسانی معاشروں خصوصاً برصغیر کے معاشروں پر حاوی ہوتا چلا گیا۔
آج ہم جن معاشروں میں رہ رہے ہیں وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے معاشرے ہیں جن میں ذات پات، مذہب، ملت کے حوالے سے رواداری کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ ماضی میں مذہبی منافرت غیر سیاسی ہوا کرتی تھی اب جب کہ معاشروں اور ملکوں میں سیاست عام ہوگئی ہے تو مذہبی انتہا پسندی بھی سیاست کا ایک حصہ بنتی جا رہی ہے۔
مذہبی دیوانگی میں مبتلا لوگ خاص طور پر ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ برصغیر پر ایک ہزار سالہ مسلم حکومتوں کا ردعمل ہے ہندو کمیونٹی کا ایک حصہ یہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک ہزار سال ہندوستان پر حکومت کرنے کا حق نہیں تھا کیونکہ وہ ہندوستان میں بارہ فیصد اقلیت کی حیثیت سے رہ رہے تھے اس فلسفے کو ماننے والے کیا اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ تقسیم سے پہلے کا دور شخصی اور خاندانی حکومتوں کا دور تھا جس میں طاقت کی برتری کو مانا جاتا تھا۔
آج ہم جیسی بھی ہو جمہوریت کے دور میں زندہ ہیں اور جمہوری فلسفوں میں مذہبی انتہا پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ لیکن اسے ہم کیا انسانوں کی بدقسمتی کہیں یا حالات کی ستم ظریفی کہ جمہوریت کے اس دور میں مذہبی انتہا پسندی کو ابھارا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں میں بھی مذہبی انتہا پسندی موجود ہے بلکہ مذہبی انتہا پسندی ترقی کرکے مذہبی دہشت گردی میں بدل گئی ہے ساری دنیا مذہبی دہشت گردی سے بے زار ہے اور مذہبی رواداری کی خواہش مند ہے ایسے دور میں اگر بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی ہے تو یہ ایک ایسی بدبختی ہے جس کو ہر صورت میں ختم ہونا چاہیے۔ ترقی یافتہ معاشروں یعنی مغربی ملکوں میں اب مذہبی انتہا پسندی کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی کو انسانوں کی ضرورت بنادیا گیا ہے بھارت کے حکمران طبقات بھارت کو ایک سیکولر ملک قرار دیتے ہیں۔ کیا کسی سیکولر ملک میں مذہب کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی ہے؟
مذہبی انتہا پسندی خواہ وہ کسی شکل میں ہو انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے اور آج کے معاشروں میں یہ ایک لعنت کی حیثیت رکھتی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کی سرپرستی کرنا دراصل انسانیت کی تباہی کا سامان کرنا ہے اور کوئی ذی ہوش انسان انسانیت کی تباہی کا خواہش مند نہیں ہوسکتا۔ دراصل دنیا کی اجتماعی ضرورت مذہبی رواداری ہے اور اس رجحان یا فلسفے کو آگے بڑھانے میں آدم کے انسانوں کے جد امجد ہونے کا نظریہ بڑا کارنامہ ثابت ہو سکتا ہے۔
دنیا کے ہر مذہب میں ایک جد امجد کا تصور کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اس تصور کو انسانیت کی اجتماعی بھلائی کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ مذاہب کا ایک اجتماعی فلاح کا بہترین حوالہ بن سکتا ہے۔ ہمارے تمام مذاہب اگر حضرت آدمؑ کو انسانوں کا جد امجد تسلیم کرلیں تو مذہبی رواداری کا راستہ بہتر طور پر ہموار ہوسکتا ہے پھر ہریانہ کے پیش امام محمد عرفان اور ان کی اہلیہ یاسمین کے بہیمانہ قتل کی وارداتیں سب مذاہب کے ماننے والوں کے لیے قابل مذمت قرار پاتیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟