حسن ناصر نے مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی جان دی، اس بہادر اور نڈرکامریڈ کا ایک مجسمہ بنا کر کسی پررونق شاہراہ پر لگایا جانا چاہیے۔ یہ عوام کا مطالبہ بھی ہے، عوام خاص طور پر مزدوروں کی خواہش بھی ہے۔
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس معاشرے میں عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایلیٹ آسمان پر چڑھا رہتا ہے۔ حسن ناصرکو اسی جرم میں شاہی قلعہ میں اذیتیں دے دے کر مارا گیا، یہ جنرل ایوب خان کا دور تھا۔ شاید حکمرانوں کو یہ ٹاسک سونپا گیا تھا کہ ترقی پسند معروف شہریوں کو چن چن کر قتل کیا جائے۔ سو حسن ناصر کو بھی عوامی جدوجہد کی قیادت کرنے کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔
حسن ناصر سے ہماری ملاقات محمد زبیر کے گھر میں ہوئی جو ایک کمرے پر مشتمل لانڈھی کی ایک مزدور بستی میں بنا ہوا تھا۔ ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ کچی دیواروں کا ہمارا گھر زبیر کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا ہماری پہلی ملاقات حبیب بغدادی نے حسن ناصر سے اسی گھر میں کرائی اس کے بعد تو بغدادی کا گھر ہمارا ٹھکانہ بن گیا۔
مزدوروں، کسانوں اور غریب انسانوں کے مسائل پر دن بھر بحث ہوتی تھی اور زبیر کی چائے اس حوالے سے ہمیں گرماتی رہتی تھی چونکہ ہم نے سوشل ازم پر بڑھ کر اسے قبول کیا تھا لہٰذا اس حوالے سے ہمارا یقین پختہ تھا۔ للوؤں پھتوؤں کے کہنے سے ہمارا یقین متزلزل نہیں ہوتا تھا۔
سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام نے انسانوں کو دو بڑے حصوں میں غریب اور امیر میں بانٹ رکھا تھا۔ غریب کا مطلب زندگی کی ساری مشکلات کا مجموعہ تھا اور ہے اور امیر کا مطلب ساری خوشیوں کا مالک۔ دنیا کی آبادی میں صرف مشکل سے دو فیصد امیر ہو سکے باقی 98 فیصد غریب ہیں۔
امرا اور ان کے کارندوں نے ملک کی دولت کا 90 فیصد کے لگ بھگ حصے پر قبضہ جما رکھا ہے اور 10 فیصد دولت میں 90 فیصد کو گزارا کرنا پڑتا ہے یہ ہے وہ طبقاتی سماج کا طبقاتی ظلم جو دنیا سرمایہ دارانہ نظام کی آمد کے بعد سے سہہ رہی ہے۔ دنیا میں آٹھ ارب کے لگ بھگ عوام رہتے ہیں ان کی قسمت میں بھوک، افلاس اور جہل لکھا ہے۔ اس تھیوری کے ذریعے عوام کو صدیوں سے بہلایا جا رہا ہے اور ان مجرموں کو بچایا جا رہا ہے جو غریب عوام کے معاشی قاتل ہیں اور ان معاشی قاتلوں کو حکومتیں ان کی نجی ملکیت (اربوں کی) کا تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کھلی لوٹ مارکب تک چلتی رہے گی؟ اس نظام کے باقی رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں، دنیا میں ہزاروں نظریہ ساز، اہل فکر، اہل دانش موجود ہیں کیا وہ طبقاتی نظام کی خباثتیں نہیں دیکھ رہے ہیں کیا وہ نہیں جانتے دنیا میں ہر روز 25 لاکھ انسان بھوک سے مر جاتے ہیں، لگ بھگ اتنے ہی علاج سے محرومی کی وجہ جان بحق ہو جاتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار سرمایہ دارانہ نظام کے معیشت دانوں کے فراہم کردہ ہیں اگر یہ درست ہیں تو مغربی مفکرین اور مغربی جمہوریت کے چیمپئنوں کو شرمسار ہونا چاہیے کیونکہ ان زعما کو ان حقائق کا علم ہے جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کو بدلنا پڑے گا ہمارے مغربی معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیا گیا تو پھر کون سا نظام ایسا رہ جاتا ہے جو سوشل ازم کا بہتر متبادل بن سکے؟ اگر معزز عمائدین کو سوشل ازم پسند نہیں تو اس کا کوئی بہتر متبادل پیش کریں تاکہ سالانہ 25 لاکھ انسان مرنے سے بچ سکیں اور 25 لاکھ انسان بیماریوں سے مرنے سے بچ سکیں کیا دنیا کے دانشور عقل سے پیدل ہیں؟
حسن ناصر ایک سیاسی کارکن تھا لیکن اس ظالمانہ طبقاتی نظام کا سخت دشمن تھا اور وہ اس لڑائی میں اتنا آگے آگیا کہ عوام دشمن حکمرانوں کو اس کا زندہ رہنا ذرا اچھا نہیں لگتا تھا۔ اسی لیے اس عظیم انسان کو قلعہ لاہور میں اذیتیں دے کر ہلاک کیا گیا۔ یہ ہے سرمایہ دارانہ نظام جس کی ہم پوجا کرتے ہیں۔ اس نظام کی سب سے بڑی بدبختی اور ظلم یہ ہے کہ یہ زندہ انسانوں کو مردوں میں بدل دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دو فیصد انسانوں کی زندگی جنت بنی رہتی ہے لیکن 98 فیصد انسان بھوک، بیماری اور بے کاری جیسی لعنتوں میں گھرے رہتے ہیں۔
حسن ناصر انھی مجبور اور سرمایہ دارانہ نظام کے مارے عوام کا حامی تھا بہت سے سیاسی رہنماؤں کے دن منائے جاتے ہیں۔ یادش بخیر! مزدوروں کے عالمی دن یکم مئی کی چھٹی ہماری گزارش پر منظورکی گئی تھی اب ہماری گزارش ہے کہ حسن ناصر ڈے پر عام چھٹی کرکے حسن ناصر کی قربانیوں کو سلام کریں کیا آنے والے حسن ناصر ڈے تک ہمارا حکمران طبقہ ناصر ڈے پر چھٹی کا اعلان کرے گا؟