حکومت نے ملک کے تقریباً تمام قابل ذکر شہروں میں عوام کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہیلتھ کارڈ فراہم کر دیے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک تو سرکاری اسپتال ہیں جو عوام کو طبی سہولتیں فراہم کرتے ہیں، دوسرے پرائیویٹ اسپتال ہیں جو طبی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ جیسا اس سسٹم کا رواج ہے، سرکاری اسپتالوں میں علاج کے نام پر خانہ پری کی جاتی ہے۔
عام غریب آدمی پرائیویٹ علاج نہیں کراسکتا، اس لیے اسے سرکاری اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور ان اسپتالوں میں ٹھیک طرح سے ذہنی تسلی کا بھی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اور دوائیں بھی نہیں ملتیں اور یہ بات اتنی عام ہے کہ ہر مریض جانتا ہے، ان حقائق کو دیکھ کر حکومت نے عوام کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ہیلتھ کارڈ جاری کیے ہیں۔ یہ حکومت کا بہت اچھا اقدام ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتنے اہم کام کے بارے میں عوام کو معلومات کا فقدان ہے کیونکہ حکومت کی نااہلیوں کی وجہ سے اس بڑے کام کی جس پیمانے پر پبلسٹی ہونی چاہیے تھی وہ ہوئی نہیں اور شہری عوام کے علاوہ کسانوں کو بھی ہیلتھ کارڈ دیے جا رہے ہیں۔
طبی سہولتوں کی کسانوں کو فراہمی ایک احسن اقدام ہے جس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ کسانوں کو سانپ کے کاٹے کے علاج کی سہولتیں مہیا نہیں تھیں۔ سانپ کے کاٹے کے مریضوں کو گاڑی میں ڈال کر بیسیوں میل دور بڑے شہروں کو لے جانا پڑتا تھا اور شاید اب بھی یہی صورتحال ہے۔ کسانوں کے لیے ہیلتھ کارڈ ایک اتنی بڑی سہولت ہے کہ آج تک کسی حکومت نے کسانوں کو یہ سہولت فراہم نہیں کی۔ اب دیہی علاقوں میں رہنے والے کسانوں کو بھی جدید طبی سہولتیں حاصل ہو سکتی ہیں۔
حکومت کا المیہ یہ ہے کہ اس کے پاس وہ ٹیمیں نہیں ہیں جو حکومت کے اچھے کاموں خاص طور پر فلاحی کاموں کی بھرپور تشہیر کرسکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت کے بڑے بڑے کام عوام ہی نہیں خواص کی نظروں سے بھی اوجھل رہتے ہیں۔ ہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ حکومت اس قسم کی حکومتی کمزوریوں پرکیوں قابو نہیں پاتی۔ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اب تک زندگی کے ہم شعبوں میں کیے جانے والے مثبت کاموں کو بھی عوام تک نہیں پہنچا سکی، اگر اس کمزوری کو دور نہ کیا گیا تو حکومت کا سارا کیا کرایا پانی میں چلا جائے گا، کیا ان تلخ حقائق سے حکومت آگاہ ہے؟
ملک کی 72 سالہ تاریخ ایلیٹ کی بدعنوانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس طبقے کی سب سے بڑی ترجیح لوٹ مار رہی ہے اور یہ اب بھی جاری ہے۔ عوام سابق حکومتوں اور حکمرانوں سے بھی بدظن ہیں۔ اگر اپوزیشن کو سب سے پہلے موجودہ حکومت کے خلاف محاذ آرائی ترک کرکے عوام کے حق کے لیے باہر نکلنا چاہیے کیونکہ عوام اب حقائق سے آشنا ہو رہے ہیں۔ حکومت نے اگرچہ ملک کو جنت میں نہیں بدل دیا لیکن اپنی مقدور بھر کوشش کر رہی ہے کہ کم ازکم عوام کے بنیادی مسائل حل کیے جائیں۔ یہ ایک مثبت کوشش ہے۔
ملک کورونا کی خطرناک بلا کی زد میں ہے۔ ہر طرف موت کے سائے پھیلتے جا رہے ہیں۔ عوام کو اس وبا سے بہت بڑے جانی نقصان کا سامنا ہے۔ کورونا ایک ایسا وائرس ہے جس کا کوئی حتمی علاج اب تک نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ اس حوالے سے عوام سخت خوف کا شکار ہیں۔
بدقسمتی سے اپوزیشن نے اس حوالے سے تنقید کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ لاکھوں انسان اب تک اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں اور اس حوالے سے یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ صحت کارڈ ملک کے تمام علاقوں میں بانٹے جاچکے ہیں۔ حتیٰ کہ کسانوں کو بھی ہیلتھ کارڈ مہیا کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو اس حوالے سے نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ایسا کیوں؟ یہ سوال بڑا حیرت انگیز ہے۔ کراچی بلاشبہ ایک ترقی یافتہ شہر ہے لیکن لاکھوں افراد پر مشتمل لانڈھی، کورنگی، نیو کراچی، شیرشاہ جیسی درجنوں وہ بستیاں بھی ہیں جہاں ہر طرف بھوک ہے، افلاس ہے، بیماری ہے کیا ایسے شہروں کو ہیلتھ کارڈ سے محروم رکھنا غیر جانبداری کی تعریف میں آتا ہے؟
بلاشبہ کراچی کی آبادی دو ڈھائی کروڑ ہے لیکن کیا آبادی میں اضافے سے کسی علاقے کے عوام کو ان سہولتوں سے محروم ہونا چاہیے جو ملک کے دیگر علاقوں کے عوام کو حاصل ہیں؟ کراچی ملک بھر میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر ہے۔ کیا ایسے مائی باپ شہر کو ان سہولتوں سے بھی محروم ہونا چاہیے جو دیگر علاقوں کے عوام کو حاصل ہیں؟ یہ ایک ایسا بڑا سوال ہے۔ یہ ایسا اہم اور تلخ سوال ہے جس کا جواب کراچی کے عوام مانگ رہے ہیں۔