Thursday, 14 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hukumat Ki Himayat Kyun

Hukumat Ki Himayat Kyun

ہمارے بعض محترم دوستوں کو یہ اعتراض یا شکایت ہے کہ حکومت کی براہ راست یا بالواسطہ حمایت بھی جمہوریت کی توہین ہے۔ جمہوریت ہی وہ واحد سیاسی نظام ہے جو عوام کے مفاد میں ہے جس کی حمایت کی جانی چاہیے۔ جو لوگ حکومت کی حمایت کر رہے ہیں وہ ملک دشمنی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

یہ اعتراض سر آنکھوں پر لیکن دست بستہ عرض ہے کہ کیا اس بدقسمت ملک میں کبھی جمہوریت نام کی کوئی چیز رہی ہے، اگر تقریر کرنا، جلسے جلوس کرنا، کانفرنسیں کرنا ہی جمہوریت ہے تو بلاشبہ پاکستان میں یہ جمہوریت عشروں رہی ہے لیکن اس جمہوریت میں یہ سب کچھ تو ہوتا ہے جمہور نہیں ملتا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں آج تک کوئی ایسی جمہوریت دو دن کے لیے بھی نہیں آئی جس میں عوام کی بالا دستی رہی ہو اور جسے ہم عوامی جمہوریت کہہ سکیں۔

یہ غالباً 1967ء کی بات ہے ان دنوں ملک میں نیشنل عوامی پارٹی نام کی بائیں بازوکی ایک جماعت ہوا کرتی تھی۔ 1967ء میں لاہور میں اس حوالے سے ایک کانفرنس ہو رہی تھی جس میں ہم بھی مدعو تھے۔ سید مطلبی فرید آبادی ایک ترقی پسند لکھاری تھے وہ بائیں بازو کے ترجمان مختلف رسائل نکالتے تھے ان میں سے ایک رسالے کا نام "عوامی جمہوریت" تھاجس میں ہم بھی پابندی سے لکھتے تھے۔

اصل میں جمہوریت کے حوالے سے یہ انکشاف ضروری ہے کہ 1967ء تک پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اشرافیہ کی نیابتی حکومت تھی جو بدقسمتی سے آج تک چل رہی ہے بھلے وہ جوئے کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو، اس اشرافیائی جمہوریت کے مخالفین نے عوامی جمہوریت کے نام سے ایک رسالہ نکالا جس میں نیابتی اشرافیائی جمہوریت کو بے نقاب کیا جاتا تھا اور بتایا جاتا تھا کہ جس جمہوریت میں عوام کی قیادت نہ ہو یا قیادت عوام کے ہاتھوں میں نہ ہو وہ سب کچھ تو ہو سکتا ہے جمہوریت نہیں ہو سکتی۔

اس حقیقت کی روشنی میں پاکستانی جمہوریت کا مشاہدہ کریں تو ہمارے سامنے جاگیرداروں، وڈیروں، بیوروکریسی کی وہ جمہوریت آتی ہے جس کو عوامی مسائل سے کبھی دلچسپی نہ رہی۔ نہ انھیں حل کرنے کی کبھی کوشش کی گئی، اس جمہوریت کا ایک ہی کام ہوتا ہے عوامی دولت کی لوٹ مار ویسے تو یہ مشغلہ قیام پاکستان کے بعد ہی سے جاری ہے لیکن پچھلے دس سال سے جو عوامی دولت کی لوٹ مار ہو رہی ہے، اس کی مثال پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔

لاہور سے نکلنے والے رسالے عوامی جمہوریت کا بنیادی مقصد عوام کو عوامی جمہوریت سے روشناس کرانا اور خواصی جمہوریت کو بے نقاب کرنا تھا یہ رسالہ پاکستان کے علاوہ بیرونی ملکوں میں بھی پڑھا جاتا تھا۔ فیضؔ اور سبط حسن کی سرپرستی میں نکلنے والے مشہور ہفت روزہ لیل و نہار بھی عوامی جمہوریت کا داعی تھا، جس کی مجلس ادارت میں ہم بھی شامل تھے۔ مدیر ہمارے دوست حسن عابدی تھے۔ یہ رسالہ بائیں بازو کا ترجمان ہی نہیں بلکہ پہچان بھی تھا، کراچی میں پی آئی اے کی یونین ایک رسالہ منشور کے نام سے نکالتی تھی اس کے علاوہ بائیں بازو کے ترجمان کئی اور رسالے بھی نکالتے تھے۔

بات چلی تھی جمہوریت کی اور حکومت کی حمایت کی اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ موجودہ حکومت کی آمد کے بعد عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اس تناظر میں عمران حکومت کو عوامی جمہوری حکومت نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کی ذمے داری سابقہ دس سالہ اشرافیائی حکومت پر آتی ہے جس کا سارا وقت عوامی دولت کی لوٹ مار میں گزرا اور ملک پر چوبیس ہزار ارب کا قرضہ چھوڑا یہی وہ قرض ہے جس کی ادائیگی میں حکومت لگی ہوئی ہے۔ بلاشبہ حکومت ماضی کی حکومتوں کے قرض چکانے کی وجہ عوام کو ریلیف نہیں دے پا رہی ہے لیکن اس مجبوری کا شکار عوام کو نہیں بنایا جانا چاہیے۔

حکومت کو عوام کے مسائل خاص طور پر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے چاہئیں صرف سابقہ دو حکومتوں کی کرپشن کی دولت ہی ریکور کر لی جائے تو عوام مہنگائی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ عوام حکومت سے یہ پوچھنے میں سو فیصد حق بجانب ہیں کہ میڈیا میں کرپشن کے حوالے سے دس سالہ حکومتوں پر جو اربوں روپے کے الزامات لگائے تھے اگر یہ الزامات درست ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی اربوں روپوں کی دولت کو ریکور کیوں نہیں کیا گیا؟ حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بتائے کہ یہ اربوں روپوں کی رقم ریکور کیوں نہیں کی گئی؟

یہ ایک جینوئن سوال ہے اپوزیشن پر اربوں روپے کی کرپشن کا الزام لگایا جاتا رہا جب الزام لگایا گیا ہے تو الزام لگانے والوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ الزام کو ثابت کر کے مجرموں کو سزائیں دلائیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ بات آئی گئی ہو گئی۔ بلاشبہ کیسز ابھی عدالتوں میں "انڈر پراسس" ہیں لیکن ان میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی، نواز شریف کا کیس البتہ چلایا گیا اور انھیں لمبی سزا بھی سنا دی گئی لیکن جب سے اشرافیہ کے خلاف احتساب ہو رہا ہے احتساب کا مزاج سرے سے یکسر بدل گیا ہے۔ جیلوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ 5اسٹار ہوٹل بن گئی ہیں۔

اب ذرا اس اعتراض کی طرف آتے ہیں کہ ایک "سلیکٹڈ" حکومت کی بعض حلقوں کی جانب سے حمایت کی جا رہی ہے۔ پہلی بات یہ کہ بدقسمتی سے تقریباً ساری جمہوری حکومتیں کسی نہ کسی حوالے سے سلیکٹڈ ہی رہی ہیں، تو بات چل رہی تھی حکومت کی حمایت پر تنقید کی، حکومت کی حمایت دانا حلقوں میں اس لیے کی جا رہی ہے کہ عمران خان نے اشرافیائی حکومتوں کے 72 سالہ قبضے سے ملک کو چھڑا لیا ہے اور پہلی بار ایک مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کے اثرات اشرافیہ کی در بدری میں دیکھے جا سکتے ہیں۔