Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Ikhtilaf e Raye Aur Mukhalfat Mein Farq

Ikhtilaf e Raye Aur Mukhalfat Mein Farq

دنیا کے جمہوری ملکوں میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اختلاف رائے ایک عام بات ہے لیکن اختلاف رائے اور دشمنی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اتنا شدید اختلاف رائے نظر آرہا ہے جو دشمنی کی حدوں کو پار کر رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے جو اتحاد تشکیل دیا ہے اس میں نو جماعتوں کی بھرتی بھی کی گئی ہے یوں یہ اتحاد اب 11 جماعتی اتحاد بن گیا ہے۔

اپوزیشن اتحاد کی شکل کچھ ایسی ہی بن گئی ہے جسے سارے اتحادی ان حدوں کو پارکرنے سے احتراز برتتے ہیں جہاں سے خطرے کا احساس پیدا ہوتا ہے، پی ڈی ایم کا بھی یہی حال ہے۔ اس اتحاد میں حقیقی معنوں میں دو ہی جماعتیں ایکٹیو ہیں ان میں سے ایک ایکٹیو ہے دوسری سیاسی مخالفت کی راہ پر چل پڑی ہے۔

مخالفت میں عام طور پر چھوٹی موٹی باتوں کو بنیاد بنایا جاتا ہے اس اتحاد میں جو مشترکہ نکتہ ہے وہ تحریک انصاف کی عام انتخابات میں دھاندلی کا نکتہ ہے۔ تحریک میں بھی بنیادی مسئلہ دھاندلی ہی تھا اور انتخابات میں دھاندلی ہماری جمہوریت میں ایک عام سی بات ہے، شاید ہی کوئی انتخابات ایسے گزرے ہوں جس میں دھاندلی کی صدائے بازگشت سنائی نہ دی ہو۔

ابتدا میں اپوزیشن اتحاد میں بھی رسمی سا اعتراض تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہماری اپوزیشن کا یہ خیال تھا کہ نئے اور ناتجربہ کار حکمران جلد ہی فیل ہو کر اقتدار چھوڑ دیں گے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی حکومت کے پیر مضبوط ہونے لگے تو اپوزیشن کو یہ احساس ہونے لگا کہ معاملات ان کے اندازے سے مختلف ہوتے جا رہے ہیں۔

ادھر یہ احساس بھی سر پر سوار تھا کہ 10 سالوں میں ہم نے عوام کو دیا کچھ بھی نہیں۔ اس احساس کی وجہ سے اپوزیشن کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں عوام حالیہ حزب اقتدار کی طرف نہ چلے جائیں۔ ہماری آج کی اپوزیشن جس سست رفتاری سے چل رہی تھی اس میں اتنی تیزی آگئی کہ اختلاف مخالفت میں بدلنے لگے اور اس سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ حزب اختلاف کو ایک ایسی متحدہ مل گئی جو 11 مقررین پر بھاری تھے پھر آگ بھڑکتی گئی اور ملک کے سادہ دل عوام اس پوری صورتحال اور اس کی پشت پر کارفرما محرکات ان کی سمجھ سے باہر ہی رہے وہ مجسمہ حیرانی بنے رہے۔

ہر ملک میں اداروں کی شکل میں ایسی طاقتیں موجود ہوتی ہیں جو دودھ اور دودھ کی دھار کو دیکھتی رہتی ہیں۔ یہ طاقتیں 10 سال تک دیکھتی رہیں اور سیاسی دھاندلیوں اور کرپشن کو روکنے کی کوشش کرتی رہیں یہاں برسبیل تذکرہ یہ کہنا ضروری ہے کہ ان غلط اعمال کو روکنے کے لیے وہ اس وقت تک سامنے نہیں آتیں جب تک حالات قابو سے باہر نہیں ہو جاتے، اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ ہمارے سابق کرکٹر صاحب سامنے آئے یا لائے گئے یہ کسی شخص یا گروہ یا جماعت کی مجبوری نہ تھی بلکہ عوام کی مجبوری تھی کہ کرپٹ اشرافیہ سے ملک کو نجات دلائیں۔

حزب اختلاف نے آتشیں مقررہ کی آگ کو یہ سمجھ لیا کہ اس سے ہفتہ پندرہ دن میں چھٹکارا حاصل ہو جائے گا اور وزیراعظم عمران خان کے نئے پن کی مس مینجمنٹ کی وجہ سے حزب اختلاف خوش تھی کہ پی ٹی آئی حکومت کی کمزوریاں انھیں جلد مسند اقتدار تک پہنچا دیں گی لیکن پی ٹی آئی نے کسی نہ کسی طرح حالات پر کنٹرول حاصل کرلیا اور اس تیزی سے ترقیاتی پروگراموں کی راہ میں پیش قدمی شروع کی کہ گیارہ جماعتی اتحاد آنکھیں ملتا رہ گیا اورموجودہ حکومت نے مضبوطی سے قدم جمالیے اب صورتحال یہ ہے کہ گیارہ جماعتی اتحاد ایک جماعتی اتحاد میں بدل کر رہ گیا ہے۔

جو مجمع ایک آواز پر اکٹھا ہوتا تھا اب وہ خاموش بیٹھا ہے، دھرنے، لانگ مارچ، شارٹ مارچ، استعفے سب دھرے کے دھرے رہ گئے اور گاڑی ایک جگہ یعنی اخباری بیانات پر رک کر رہ گئی ہے۔ پریس کانفرنسوں کی تو بہار ہے ایک پارٹی کے لیڈر دن میں تین تین چار چار پریس کانفرنسوں تک پھیل گئی ہے میڈیا میں صاف ستھری بااخلاق زبان کے ساتھ اپوزیشن کے جلوے دیکھے جا رہے ہیں۔ عمران نے ہر گروہ کے ساتھ دو بندے لگا دیے ہیں۔

مشہور کرکٹر جو کرکٹ کھیل سکتا ہے وہ سیاست بھی کھیل سکتا ہے مشکل یہ ہے کہ سیاست کے کھیل میں ایسا بالر چاہیے جو فٹافٹ وکٹیں اڑائے لیکن کرکٹ کی وکٹوں اور سیاست کی وکٹوں میں فرق ہوتا ہے، کرکٹ کی وکٹیں اکیلا بالر اڑاتا ہے اور سیاست کے کھیل میں کئی بالر کی ضرورت ہوتی ہے پھر بھی وکٹ نہیں اڑتی۔

چلیے اب وکٹ کی باتیں ختم کریں اب اصل ناموں سے بات کریں۔ شریف کرکٹ ٹیم کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کی وکٹ ایسے وقت میں اڑی ہے جب کہ اس کی سخت ضرورت تھی وہ وکٹ بھی کسی پلیئر کی نہیں کپتان کی تھی۔ کپتان کی وکٹ اڑنے کی وجہ سے ٹیم میں بددلی پیدا ہونا فطری ہے۔ لیکن شاباش ہے پتری پرکہ اس نے کپتان کی کمی محسوس ہونے نہیں دی بلکہ کپتان سے زیادہ جوش جذبہ سے بال کھیلا۔ اور اس نے ہمت نہیں ہاری، یہی اس کی بہادری ہے لیکن ناموری اس جگہ پہنچ گئی ہے کہ اب ٹیم کو اور میچ کو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔