بہت سی خبریں ایسی ہوتی ہیں، جو انسانی معاشرے کو مہمیزکرتی ہیں لیکن عام طور پر ان خبروں کو اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ بظاہر وہ فائدہ مند یا منافع بخش نظر نہیں آتیں، لیکن ان کی افادیت ان کے تاریخی کردارکا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، اس کی وجہ ہمارا انداز نظر اور انداز فکر ہوتا ہے ایسی ہی ایک خبر روزنامہ "ایکسپریس" کے صفحہ اول پر چارکالم میں شایع ہوئی ہے جس کی سرخی ہے " دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی کوششوں کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ " یہ بات آرمی چیف جنرل باجوہ نے اتحاد تنظیم مدارس کے انٹرمیڈیٹ امتحان کے پوزیشن ہولڈر طلبا سے ملاقات کے دوران کی۔ فوجی آفیسرز کا دائرہ فکر فوجی امور ہوتا ہے اگر کوئی فوجی آفیسر سویلین مسائل پر وہ بھی تعلیمی مسائل پر بات کرتا ہے تو اس کے وژن کی داد دینی پڑتی ہے۔
دینی مدارس ہمارے ملک اور معاشرے کا ایک اہم ترین حصہ ہیں، ان کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد 32 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ دینی مدارس کو معاشرے میں جو جگہ ملنی چاہیے تھی نہیں ملی یا نہیں دی گئی۔ جس کی ذمے داری بڑی حد تک اس مینجمنٹ پر آتی ہے جو 32 لاکھ طلبا کے درس و تدریس کی دیکھ بھال کر رہا ہے، اس کے علاوہ حکومتیں بھی اس حوالے سے ذمے دار ہیں۔
کسی سسٹم کو چلانے کے لیے اس سسٹم کو چلانے والوں کی اہلیت حالات حاضرہ سے ان کی آگاہی وغیرہ کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ دینی مدارس کے طلبا کی تعداد 32 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہ کتنا بڑا ٹیلنٹ ہے جسے نظر اندازکردیا گیا ہے، بعض متعلقہ ناقدین اس حوالے سے ساری غلطیوں اور سارے سیٹ اپ کی کمزوریوں کی ذمے داری مدارس کی انتظامیہ پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تنظیم مدارس کو جن خطوط پر منظم کیا گیا ہے اور طلبا کا مائنڈ سیٹ جس طرح مستحکم ہوگیا ہے اس میں کوئی بڑی تبدیلی بغیر منصوبہ بندی کے نہ ممکن ہے نہ فائدہ مند، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ بہت سارے نظریات اس قدر ڈیپ روٹیڈ ہوتے ہیں کہ ان میں تبدیلی لانا آسان نہیں ہوتا، ایسے مسائل کو بڑے حوصلے اور عزم کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم جب اس قسم کے پیچیدہ مسائل پر غورکرتے ہیں تو ان کے ماضی حال اور مستقبل پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس مسئلے پر ہم غور کرتے ہیں تو اس مسئلے کی ایک مختصر تاریخ ہمارے سامنے ہونی چاہیے اور ایسے مسئلے پر غور کرنا جس میں 32 لاکھ نوجوان ملوث ہیں بڑی کشادہ ذہنی کی ڈیمانڈ کرتا ہے چونکہ ہم ایجڈ ہوکر سوچتے ہیں لہٰذا بہت مایوسیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم جس دنیا میں زندہ ہیں وہ چار ارب سال پرانی ہے۔
چار ارب سال کا عرصہ کس قدر طویل ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی کارے دارد ہے لیکن اگر کسی اہم مسئلے پر غور کرنا ہو تو بڑے صبر اور استقامت سے اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا تعلق دینی امور سے ہے لہٰذا اس کے بارے میں حکما کے ارشادات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ علم ماضی حال اور مستقبل کا اہم ترین مسئلہ ہے بلکہ تہذیبی ترقی میں علم بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ ہمارے نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ "علم حاصل کرنے کے لیے چین جانا پڑے تو چین جاؤ" اس ارشاد سے دو باتیں بہت واضح ہوکر سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ حصول علم کے لیے دنیا کے کسی کنارے پر جانا پڑے تو جاؤ، دوسرے علم کی کتنی بڑی اہمیت ہے۔
اب ان ارشادات کی روشنی میں علم کی اہمیت اور ضرورت پر غور کرنا ضروری ہے۔ ہزاروں سال پہلے علوم کی معاشرے میں کیا حیثیت تھی اس کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ آج کی دنیا میں علم کی کیا حیثیت ہے اس پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ ہر دور کا علم اپنے دور کی معلومات کے مطابق ہوتا ہے اگر معلومات کمزور ہیں تو اس کی ذمے داری علم پر عائد نہیں ہوتی۔ کہا جاتا رہا ہے کہ دنیا یعنی ہمارا کرہ ارض چپٹا ہے لیکن تحقیقی حقیقت یہ ہے کہ دنیا گول ہے یہ معلومات اور حقائق کے تضادات ہیں ان سے عقائدی نظام پر کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔ ہمارے سروں پر ایک نیلا گنبد تنا ہوا ہے جسے ہم آسمان کہتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں آسمان کی بڑی اہمیت ہے۔
آسمان دنیا بھر کے عقائد کا مرکز ہے جدید تحقیق کے مطابق آسمان نام کی کسی چیز کا سرے سے کوئی وجود نہیں۔ یہ بات اب اسکول کے بچے بھی جانتے ہیں۔ یہ حقائق نظریاتی عقائد سے بہ ظاہر متصادم نظر آتے ہیں لیکن علم تحقیق کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہم نے دو مثالیں ماضی اور حال کے حقائق اور عقائد کے حوالے سے اس لیے دیں کہ دینی مدارس کے طلبا ان پر حقیقت پسندانہ انداز میں غور کرکے ان تضادات کی وجوہات اور ان کے حل تلاش کریں۔ وقت کے ساتھ ساتھ معلومات میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے کمی نہیں ہوتی۔ معلومات کا یہ اضافہ نظریاتی اور عقائدی الجھنوں میں مبتلا کرسکتا ہے لیکن ہم نے اس حوالے سے یہ گزارش کی تھی کہ مفروضات اور حقائق کے درمیان جو فرق ہے اسے کوئی مسئلہ بنانے کے بجائے وقت کے تناظر میں اس قسم کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے دنیا چاند پر جا رہی ہے اور ہم چاند دیکھنے کو ایک مسئلہ بنا کر اس مسئلے پر الجھتے رہتے ہیں۔ پاکستان ابھی تک جاگیردارانہ اور قبائلی نظاموں میں الجھا ہوا ہے آج مغرب نے جو ترقی کی ہے وہ سب سائنس اور ٹیکنالوجی کا کرشمہ ہے۔ سائنس ٹیکنالوجی اور جدید علوم کو حاصل کیے بغیر ہم تاریخ کے میدانوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جائیں گے۔ مدارس میں 32 لاکھ طلبا زیر تعلیم ہیں، اگرکسی طرف سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ دینی مدارس میں جدید علوم پڑھانے چاہئیں تو یہ ملک و ملت کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہیں اگر 32 لاکھ طلبا جدید علوم سے لیس ہوں تو پاکستان ایک غیر معمولی ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے، کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے؟