انسانوں کی معلوم تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک وبائیں آئیں اور انسانوں کو بہت جانی نقصان پہنچایا لیکن جو بلا آج کل دنیا پر مسلط ہے وہ اتنی لرزہ خیز ہے کہ شاید اس سے پہلے ایسی لرزہ خیز وبا کا دنیا کو سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ اس حوالے سے دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی نے آج تک اس کے محرکات کو نہ دیکھا ہے۔ اس وبا کی لرزہ خیزی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک دن میں دنیا میں جو انسانی جانی نقصان ہوا ہے، اسے پڑھ کر ہی خوف سے گھگھی بند جاتی ہے۔
یہ ایسی پراسرار بیماری ہے جس کے ان، آؤٹ کا کوئی پتا نہیں۔ اس بیماری کا ہیبت ناک پہلو یہ ہے کہ اس کا وائرس نظروں سے اوجھل رہتا ہے، اس کی ہیبت اور خوف کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ راشن کی تقسیم سے کورونا پھیلا تو یہ جرم سمجھا جائے گا۔ اس وبا نے دنیا بھر میں خوف و دہشت کی ایسی فضا پھیلادی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ڈس بیلنس ہوگئے ہیں۔ کوئٹہ میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اپنی حفاظت کے لیے کٹس مانگنے گئے تو پولیس نے ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج کردیا اور درجنوں ڈاکٹروں کو گرفتار کرلیا۔ کراچی اور حیدرآباد کے ڈاکٹروں نے حفاظتی کٹس نہ ملنے پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ڈیوٹیاں انجام دیں۔
اس حوالے سے تکلیف وہ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں ڈاکٹر ہیں اور ہزاروں اسپیشلسٹ ہیں۔ امریکا، روس، چین، فرانس، جرمنی جیسے ملک جہاں ہر مرض کے ماہرین ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور دل، دماغ، گردوں اور آنتوں کے انتہائی خطرناک آپریشن کرتے ہیں اور اپنے شعبے کی بیماریوں کی تحقیق کرکے نئی نئی دریافتیں کرتے ہیں۔
آخر اس بیماری کورونا کے آگے اس قدر بے بس کیوں ہیں؟ ہم نے اپنے ایک کالم میں یہ گزارش کی تھی کہ اس وحشی بلا کی اِن آؤٹ کا کوئی پتا نہیں چل رہا لہٰذا اس حوالے سے متعلقہ ماہرین کا ایک عالمی کنونشن بلایا جائے اور کورونا کے ہر پہلو پر غور کرکے ماہرین کی ایک کمیٹی بنا دی جائے جو جان لڑا کر اور اپنی تمام تر مہارت استعمال کرکے اس قاتل وبا کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کرے کیونکہ یہ مسئلہ ہر آنے والے دن زیادہ خطرناک ہوتا جا رہا ہے اور دنیا کے عوام انتہائی خوفزدہ ہیں۔ اس بیماری کی وحشت کا عالم یہ ہے کہ عام آدمی کو تو چھوڑیے کئی ملکوں کے اعلیٰ مقام بھی اس وبا کا شکار ہو رہے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی کورونا کے شکار ہوئے تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وباء کتنی حشرسامان ہے۔ اس حوالے سے حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کی خطرناک سے خطرناک بیماریوں کا علاج دریافت کر لیا گیا ہے۔ کیا کورونا دنیا کی ایسی انوکھی بیماری ہے کہ دنیا کے سارے ڈاکٹر دماغ لڑا رہے ہیں لیکن نتیجہ صفر ہی ہے۔
کورونا کی ہیبت کا عالم یہ ہے کہ اعلیٰ حکام ذہنی طور پر ڈس بیلنس ہوگئے ہیں کہ اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ "راشن کی تقسیم سے کورونا پھیلا تو یہ جرم سمجھا جائے گا" اسی طرح کوئٹہ میں اپنے لیے حفاظتی کٹس مانگنے والے ڈاکٹروں پر پولیس سے سخت تشدد کیا۔ یہ خوف کی علامتیں ہیں۔ کورونا کے خوف سے بیشتر لوگوں نے اپنے آپ کو گھروں میں بند کرلیا ہے یعنی سیلف آئسولیشن میں چلے گئے ہیں۔ ہماری اشرافیہ ہر خوف سے بے نیاز حفاظتی حصار میں زندہ ہے، اس کے برخلاف غریب طبقہ خصوصاً دیہاڑی دار مزدور اپنے اڈوں پر صرف قمیص شلوار وہ بھی میلی میں بیٹھے گاہکوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
ہمارے مہربان وزیر اعظم کو دیہاڑی دار مزدوروں کا بہت خیال ہے کہ لاک ڈاؤن میں پھنسے ہوئے مزدور مزدوری سے محروم ہوتے ہیں جس کا نتیجہ پورے گھر کی فاقہ کشی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مزدوروں کو فاقہ کشی کی مصیبت و اذیت سے بچانے کے لیے عمران خان نے کنسٹرکشن انڈسٹری کو لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ قرار دینے کا فیصلہ کرنے جارہے ہیں، اب دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے روزگارکے دروازے کھلیں گے اور ان کے خاندان فاقہ کشی سے بچ جائیں گے۔ یہ بات ذہن کو بہت جھنجھوڑتی ہے اور ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ دیہاڑی دار مزدور اگر ایک دن کام پر نہیں جاتا تو اس کا پورا خاندان فاقہ کشی کا شکار ہوجاتا ہے دوسری طرف ہماری اشرافیہ اگر ایک مہینہ بھی اپنے کاروبار پر نہیں جاتی تو اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
آج کل ہر مذہب کو ماننے والے لوگ اپنے اپنے خدا، بھگوان، پرماتما، گاڈ سے دعا کر رہے ہیں کہ وہ اس کورونا کے عذاب سے انھیں بچائے۔ لیکن ادھر صورت حال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہو رہا ہے کیا یہ ہمارے ناکردہ گناہوں کی سزا تو نہیں؟ بے چارہ مزدور بغیرکسی احتیاطی لوازمات کے پھٹے پرانے کپڑوں میں مزدوری کرتا ہے سخت دھوپ سخت سردی سخت بارش میں وہ اتنی سخت محنت کرتا ہے کہ پسینہ نکل جاتا ہے۔ دنیا میں ایک سے ایک اعلیٰ قسم کے پرفیوم موجود ہیں جس کی خوشبو سے پورا ماحول معطر ہو جاتا ہے لیکن کیا دنیا میں ایسی "ناکیں " ہیں جو مزدور کے پسینے کی خوشبو سے محظوظ ہوں؟
کورونا ہر آئے دن اور زیادہ شدت اختیار کر رہا ہے، ہمارے وزیر اعلیٰ لاک ڈاؤن کے اوقات میں اور اضافہ کرنے کی بات کر رہے ہیں جو "حالات حاضرہ" کے تناظر میں درست اقدام معلوم ہوتا ہے لیکن کیا مراد علی شاہ کو "بندہ مزدور" کے حالات کا اندازہ ہے جو پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑوں میں خون پسینہ ایک کرکے کورونا کے خوف سے بے بہرہ دس دس گھنٹے کام کرتا ہے اور آٹے کی ایک تھیلی کندھے پر رکھ کر خدا کا شکر بجا لاتا ہے۔ ایک طرف گرمی اور لُو سے بے نیاز مزدور ہے تو دوسری طرف اے سی انجوائے کرنے والا مالک ہے پسینے میں شرابور مزدور دعا کر رہا ہے کہ اے خدا گرمی کم کردے اور میں دو آنسوؤں کے ساتھ آمین کہہ رہا ہوں۔