اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو صورت حال کچھ زیادہ خوش کن دکھائی نہیں دیتی ہمارے سیاستدانوں نے جو سیاسی راستہ اختیار کیا، وہ اس ملک میں جمہوریت کے لیے روک کا ذریعہ بنا۔ دنیا کے معلوم جمہوری طریقوں میں واحد راستہ وقت مقررہ پر انتخاب کا ہے لیکن اسے ہم عوام کی بدقسمتی کہیں یا سیاستدانوں کی کہ الیکشن ابھی ختم بھی نہیں ہوتے کہ بے ایمانی اور دھاندلی کے ایسے زوردار نعرے لگتے ہیں کہ اللہ دے اور بندہ لے۔
الیکشن ہارنے والے یہ شور مچانے لگتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے جب کہ جیتنے والے یہ وضاحتیں کرتے ہیں کہ الیکشن شفاف ہوئے اور کسی قسم کی دھاندلی نہیں ہوئی۔ اس صورت حال نے جمہوری نظام کو ہمیشہ نقصان پہنچایا اور مارشل لاء کا راستہ ہموار کیا۔ آج بھی صورت حال میں تبدیلی نہیں آئی اور معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں۔
آئین کے لحاظ سے انتخابات میں ابھی ڈھائی سال باقی ہیں لیکن ماضی کی طرح جلد بازی کا عالم یہ ہے کہ ابھی سے ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ ملک انارکی کی طرف چلا جائے اور یہ کہنے کا موقعہ مل جائے کہ ملک میں حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ اس کا واحد علاج نئے انتخابات ہی ہیں۔
اس کے ساتھ آہستہ آہستہ جلسے، جلوسوں اور انارکی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور بتدریج حالات کو اس نہج پر لایا جائے گا کہ یا تو مارشل لا لگ جائے گا یا اتنی انارکی پھیلائی جائے گی کہ الیکشن کے سوا کوئی اور راستہ نہ رہے یہ پریکٹس گزشتہ ستر سال سے اب اتنی عام ہوگئی ہے کہ عوام اس سے دل برداشتہ ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے ورنہ حالات اس قدر ہنگامہ خیز ہوتے جا رہے ہیں کہ ملک میں کسی وقت بھی بڑا ہنگامہ ہو سکتا ہے کیونکہ حالات کو ہنگامی بنائے بغیر نئے انتخابات کا راستہ نہیں نکل سکتا۔
حکومت، اپوزیشن اور الیکشن کمیشن بیٹھ کر انتخابات کو زیادہ سے زیادہ شفاف اور پرامن بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں تاکہ آیندہ ہونے والے انتخابات ہارنے والے امیدوار اپنی ہار کو بخوبی تسلیم کریں اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔
ادھر موجودہ حکومت کی ناتجربہ کاری کا عالم یہ ہے کہ وہ مسائل جنھیں آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ حل نہیں ہو رہے ہیں بلکہ سیاسی بے چینی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال ایسی ہے کہ طوفان کا رخ کسی وقت بھی حکومت کی طرف ہو سکتا ہے اگر ایسا ہوا تو ملک بدنظمی کا شکار ہی ہو سکتا ہے۔
ہمارے پڑوس میں بہت بے چینی والا ملک بھارت ہے۔ بھارت لسانی حوالے سے ہی نہیں سیاسی حوالے سے بھی بہت بٹا ہوا ملک ہے لیکن وہاں کے سیاستدان جلد باز اور اس طرح اقتدار کے بھوکے نہیں ہیں جیسے ہمارے ملک میں ہوتا چلا آ رہا ہے، اسی وجہ سے وہاں نہ ہر وقت ایک ہنگامی کیفیت پیدا ہوتی ہے نہ سیاسی انتشار کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جو ہمارے ملک میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سیاستدانوں میں اقتدار کی وہ ہوس نہیں ہے جو پاکستان کے سیاستدانوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ وہاں انتخابات کے لیے مقررہ ٹائم کا انتظار کیا جاتا ہے ملک میں ہنگامے پیدا کرکے سوگ کی حالت نہیں پیدا کی جاتی۔ اس پریکٹس سے نہ سیاسی بے چینی پیدا ہوتی ہے نہ ہنگامی حالت پیدا ہوتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دو ملکوں میں اتنا فرق کیوں ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاست چند گھروں کی لونڈی بنی ہوئی ہے اور ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں عوامی سیاست ہے۔ اسی وجہ سے دونوں ملکوں کی سیاست میں بھی فرق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ کا قبضہ ہے عام آدمی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس روایت کی وجہ سے سیاست اشرافیہ کی جاگیر بنی ہوئی ہے۔ عام آدمی کی سیاست صرف پانچ سال میں ایک دن ووٹ ڈالنے تک محدود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایم این اے اور ایم پی اے عام آدمیوں میں سے نہیں ہوتا صرف خاص آدمی ہی ایم این اے اور ایم پی اے بنتا ہے اور اس کا فائدہ بھی وہی اٹھاتا ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام رہا ہے اور اس کا تسلسل کسی نہ کسی شکل میں سامنے آتا ہے۔
ضیا الحق کے زمانے میں نئے لوگ اور نئے خاندان سیاست میں آئے اور سیاست میں اپنے قدم اس تیزی سے جمائے کہ سیاست جاگیردارانہ کی بجائے صنعتکارانہ اور تاجرانہ ہوکر رہ گئی۔ صنعتکار اور تاجر بہت جلد سیاست کا پھل چاہتا ہے جب کہ جاگیردار اس حوالے سے حوصلے کا مظاہرہ کرتا تھا۔ اب صورتحال یوں مخدوش ہوگئی ہے کہ سیاست میں وہ لوگ آگے آگئے ہیں جو جلد سے جلد برسر اقتدار آنا اور اقتدار کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں۔