انسانی تقسیم نے انسان کو کس قدر وحشی بنا دیا ہے، اس کے مناظر آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن سیکڑوں میل دور دیشوں میں انسان، انسان کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے اس کا المیہ صرف چند سیکنڈ ٹی وی اسکرین پر دیکھا جاسکتا ہے اور یہ چند سیکنڈ کے نظارے انسان کی حیوانیت کا ایسا ثبوت بن جاتے ہیں انھیں ذہن سے نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے 50 ہزار فلسطینی قبلہ اول پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، فلسطینیوں کی اس جرأت سے اسرائیلی بھیڑیوں کا اشتعال میں آجانا فطری امر تھا سو اس اشتعال نے 134 فلسطینی مظاہرین کو آنسو گیس اور ربڑکی گولیوں سے اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ یہ مظاہرین شدید زخمی ہوگئے، زخمیوں میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ خبر کے مطابق اسرائیلی پولیس کے تشدد سے معصوم بچے زخمی ہوگئے اور بڑوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔
یہ پہلا موقعہ نہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ ایسا بد ترین وحشیانہ سلوک کیا گیا بلکہ یہ اسرائیلی جارحیت کا ایک تازہ ثبوت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان، انسان کے خلاف بھیڑیا کیوں بن گیا ہے؟ بلاشبہ اس بربریت کے پیچھے مذہبی دیوانگی ہے لیکن مذہب تو ایک عقیدہ ہے جو انسانوں کو انسانوں کے ساتھ برادرانہ سلوک کرنا سکھاتا ہے، پھر یہ حیوانیت کہاں سے آجاتی ہے؟
اصل میں انسان نما بھیڑیے اپنی بربریت مذہب کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہ اسرائیلیوں کی بہادری ہے کہ انھوں نے دو مہینوں کی حیوانیت میں 9 فلسطینیوں کو قتل کر دیا اور سیکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کر دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان اس قدر بڑا حیوان کیوں بن جاتا ہے؟ اس سوال کا آسان اور منطقی جواب تو یہ ہے کہ مذہب کا غلط تصور انسان کو حیوان سے بدتر بنا دیتا ہے اور بدقسمتی سے یہ سبق مذہب کا غلط تصور رکھنے والی مذہبی قیادت مہیا کرتی ہے جب میں یہ خبر پڑھ رہا تھا تو 1948 میں مذہب کے نام پر کی جانے والی حیوانیت یاد آگئی۔
1947 میں ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا، یہ ایک مبارک گھڑی تھی کہ انسان، انسان کی غلامی سے آزاد ہوا لیکن یہ آزادی اپنے ساتھ ایسی حیوانیت لے آئی کہ دیکھتے دیکھتے 22 لاکھ انسانوں کو کھا گئی۔ یہ انسانی تاریخ کا وہ المیہ تھا جس میں دیکھتے ہی دیکھتے انسان ایسا بھیڑیا بن گیا کہ کئی لاکھ انسانوں کا خون پانی کی طرح بہا دیا۔ ایسا کیوں؟ اس سوال کا جواب مذہبی قیادت کو دینا ہے کہ اس نے عوام میں مذہب کی کسی تعلیم دی انھیں انسان سے بھیڑیا کیوں بنایا؟
ایک سوال بہرحال ذہن میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے کہ یہ سلسلہ آج کا تازہ نہیں بلکہ صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ کیا مذہبی قیادت غریب اور سادہ لوح عوام کو یہی تعلیم دیتی رہی کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے قابل گردن زدنی ہی ہیں؟ اب دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، پہلے چاند عاشقوں کا محبوب ہوا کرتا تھا اب لال مٹی کا ایک زمین سے کچھ چھوٹا گولہ ہے اور انسان اس گولے کی سیر کرکے آیا ہے۔ کیا سو سال پہلے یہ سوچا جاسکتا تھا کہ ایک دن چاند انسان کے پاؤں کی مٹی بن جائے گا؟ کیا آج کا انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ آنے والے زمانے میں کتنے چاند انسان کے پاؤں کی مٹی بن جائیں گے؟
بے شک انسان کا چاند پر پہنچنا ایک کارنامہ ہے، جس کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن پچاس ہزار فلسطینیوں کو اپنی عبادت گاہ جانے سے اس بربریت سے روکنا کہ 134 مظاہرین بری طرح زخمی ہو جائیں کیا انسانیت ہے؟ کیا اپنی عبادت گاہوں پر جانے والوں کے ساتھ اس سلوک کو حیوانیت کے علاوہ کوئی اور نام دے سکتے ہیں؟ کیا مذہب کے نام پر ایسی بربریت مذہب سکھاتا ہے؟
جانے آج دل کیوں اتنا اداس ہے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ چین سمیت کئی ملکوں میں کرونا نے ہزاروں انسانوں کی جانیں لے لیں۔ خدا کی مخلوق اس وبا سے دہشت زدہ ہے اللہ کے انسان دوست بندے اس وبا کا علاج ڈھونڈنے میں اپنی صلاحیتیں استعمال کر رہے ہیں اور اسرائیلی مقبوضہ علاقے فلسطین میں اسرائیلی بھیڑیے سیکڑوں فلسطینیوں کی ہڈیاں توڑ رہے ہیں۔ دنیا کی واحد سپر پاورکا صدر دنیا کے دورے کرتا ہوا بھارت پہنچا ہے اور اسے اپنے معاشی مفادات اتنے عزیز ہیں کہ وہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم روکنے کی بات کرنے سے گریزاں ہے۔
نابلس میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم نے آج مجھے اس قدر دل برداشتہ کردیا ہے کہ مجھ سے صحیح لکھا بھی نہیں جا رہا ہے ذہن میں بغاوت کے ایسے بگولے اٹھ رہے ہیں کہ اپنا توازن قائم رکھنا مشکل ہو رہا ہے لیکن ہائے رے مجبوریاں۔۔۔۔ دل کی زبان کھلتی ہی نہیں۔ انسان کیوں سچ بولنے سے اتنا خوفزدہ رہتا ہے جتنا ہمارے سیاستدان آرٹیکل 6 سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ کیا اہل قلم کو آرٹیکل 6 سے خوفزدہ رہنا چاہیے؟