سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کی لیڈری سیاسی کارکنوں کی محنت اور جانفشانی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بورژوا سیاسی پارٹیاں سیاسی کارکنوں کوکھاد کے طور پر استعمال کرتی ہیں، حکومتوں سے بارگیننگ کے لیے سیاسی کارکنوں کی طاقت کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ بورژوا سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کا کام بورژوا سیاسی لیڈروں کی پبلسٹی اور طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔
اس کے برخلاف نظریاتی جماعتوں کے کارکن اپنی ساری توانائیاں اپنی پارٹی کی نظریاتی تبلیغ اور عوام تک اپنے نظریات پہنچانے میں لگاتے ہیں۔ آج کا سیاسی کارکن لیڈرکی قیمتی گاڑیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتا ہے، لیڈر کی گاڑی کے پیچھے بھاگتا ہے اور لیڈر کے حق میں نعرے بازی کرتا ہے جو سیاسی کارکن لیڈر کے نزدیک ہوتے ہیں انھیں بہت سی مراعات ملتی ہیں اور وہ اپنی محنت کا بھرپور معاوضہ وصول کرتے ہیں لیکن عام سیاسی کارکن صرف حلق پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتا ہے، پوسٹر لگاتا ہے، پمفلٹ بانٹتا ہے، بس اسی قسم کی خدمات انجام دیتا ہے۔
نظریاتی سیاسی کارکن کا سب سے بڑا کام عوام سے رابطہ کرنا، عوام کو اپنی پارٹی کے نظریات سے آگاہ کرنا اور انھیں پارٹی کا کارکن بنانا ہوتا ہے۔ آج کل پارٹیوں کی طاقت کا اظہار جلسے جلوسوں کی لمبائی چوڑائی سے ہوتا ہے۔ بورژوا سیاسی لیڈروں کی سب سے بڑی کوشش یہ ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑا جلسہ کریں، بڑے سے بڑا جلوس نکالیں، اس کا مقصد اپنی طاقت کے اظہار کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بلیک میل کرنا ہوتا ہے۔ آج کل تو صورتحال یہ ہے کہ اگرکسی جماعت کا لیڈر گرفتار ہوتا ہے تو اس کے سیاسی کارکن کورٹوں میں جیل کے گیٹوں پر جمع ہو کر نعرے لگاتے ہیں۔ اسے طاقت کا مظاہرہ کہا جاتا ہے اور یہی طاقت بارگیننگ میں استعمال ہوتی ہے۔
جب سے عمران خان برسر اقتدار آئے ہیں "اپوزیشن" جلسے جلوس ریلیوں میں مصروف ہے۔ ان سرگرمیوں میں بھاری سرمایہ لگایا جا رہا ہے۔ ہماری اپوزیشن چونکہ نیک نامی کے سارے ریکارڈ توڑ چکی ہے اور یہ نیک نامیاں میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچ رہی ہیں لہٰذا عوام ان نیک ناموں کے جلسوں جلوسوں سے دور رہ رہے ہیں۔ اسی لیے دھاڑی کے کارکن لانے پڑ رہے ہیں۔ ترقی پسند پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کے کارکن بڑی قربانیاں دینے والے ہوتے ہیں۔
کراچی میں لسانی جماعتوں کے کارکنوں کو عموماً بہت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ کارکن اپنے لیڈروں یا صرف جماعت کے لیے کام نہیں کرتے بلکہ یہ اس نظریے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں جو پارٹی کا منشور ہوتا ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے کارکنوں کو جانتا ہوں جن کی قربانیاں ناقابل یقین ہیں۔ انتہائی تکلیف دہ موت کا سامنا وہی کارکن کرتے ہیں جن کا ایک اعلیٰ مقصد ہوتا ہے، لیکن بعض ذات اور مفاد پرست لیڈر محض اپنی قیادت کو مستحکم کرنے کے لیے مخلص کارکنوں کی بلی چڑھاتے ہیں۔
نظریاتی کارکنوں کو سیاسی پارٹیاں استعمال نہیں کرسکتیں لیکن آج کل کی "نظریاتی قیادت" بڑی مالدار سیاسی جماعتوں کے گھرکی لونڈی بنی ہوئی ہے۔ "مال دو کام لو" کے نسخے پر کام کر رہی ہیں۔ آج کل ملین مارچ کا سیزن ہے جہاں دیکھو ملین مارچ کے نشانات نظر آتے ہیں، آج تک پاکستان میں ملین مارچ کا بڑا چرچہ ہے۔ ملین مارچوں کا اہتمام بھی ہو رہا ہے لیکن ان ملین مارچوں میں ملین لوگ تو نہیں ملتے ہیں ملین کا نام چلتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی یافتہ ملکوں میں اس قسم کی بلیک میلنگ کا سلسلہ تو ختم ہوگیا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں یہ سلسلہ چل رہا ہے۔
سیاسی کارکن انتہائی قابل تعریف ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ بکے ہوئے نہ ہوں۔ سیاسی لیڈروں کی اربوں کی لوٹ مار کی خبریں جب سے میڈیا میں آ رہی ہیں، عام آدمی نے تو سیاست پر دو حروف بھیج دیے ہیں۔ البتہ کچھ پیڈ کارکن دہاڑی لگا لیتے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کی قلت اور بڑھتی ہوئی سیاسی ضرورتوں نے اب ہمارے لیڈروں کو لسانی اور قوم پرستانہ سیاست کی طرف دھکیل دیا ہے، اس سیاست میں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی بس چار چھ کٹر قوم پرست لیڈروں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں بس ذرا "جھنکار" کی آواز تیز ہو پھر دیکھیں رنگ کیسا چوکھا آتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں یہ سیاست متعارف ہوئے عرصہ گزرا، سندھ میں بھی یہ سیاست زوروں پر ہے، البتہ پنجاب ابھی تک وہ رنگ جما نہ سکا جو مذکورہ صوبوں میں جمایا جاچکا ہے۔ اس سیاست میں کارکنوں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ سب کارکن پکے ہوتے ہیں۔
حقیقی سیاسی کارکن ہم نے سابق مشرقی پاکستان حالیہ بنگلہ دیش میں دیکھے ہیں، وہاں کرائے پر سیاسی کارکن حاصل کرنے کا کوئی کلچر ہی نہیں، وہاں سیاسی کارکن نظریاتی کارکن بھی ہوتے ہیں۔ 1970 کی بات ہے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی سیاست زوروں پر تھی۔ مغربی پاکستان میں تو اس کا چرچا سب سے زیادہ تھا۔
شیخ مجیب الرحمن اور چھ نکات برصغیر میں بہت مشہور تھے۔ مرحوم بھٹو صاحب مجیب الرحمن کے چھ نکات کے خلاف رائے عامہ تیزی سے بیدار کر رہے تھے۔ اسی دوران نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ مولانا بھاشانی نے ڈھاکا کے پلٹن میدان میں ایک جلسے کا اعلان کیا۔ بھاشانی صاحب نے مغربی پاکستان سے بھی نیشنل عوامی پارٹی کے ایک وفد کو پلٹن میدان کے جلسے میں شرکت کی دعوت دی، سو یہاں سے جو وفد ڈھاکا گیا اس میں ہم بھی شامل تھے۔ ہمیں شاہ باغ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 5 اسٹار ہوٹلوں کا کلچر وہاں بھی تھا۔ بس ہم برابر کے کمروں سے انواع و اقسام کی دبی دبی آوازیں ہی سنتے رہے۔
اصل میں ہم نے پلٹن میدان کا جلسہ اٹینڈ کرنا تھا۔ جب ہم پلٹن میدان پہنچے تو ہلکی ہلکی بوندا باندی جاری تھی۔ حقیقی معنوں میں سیاسی کارکن ہم نے پلٹن میدان کے جلسے میں دیکھے۔ تھوڑی دیر بعد سخت موسلا دھار بارش شروع ہوگئی جلسہ بھی جاری رہا، تقاریر بھی جاری رہیں اور موسلا دھار بارش بھی جاری رہی۔ اس موسلا دھار بارش میں سیاسی کارکن تو اپنی جگہوں پر جمے ہی تھے پلٹن میدان میں لاکھوں عوام اپنی جگہوں سے ہل کے نہیں دے رہے تھے۔
سیاسی کارکن پورے پلٹن میدان میں پھیلے ہوئے تھے اور الرٹ کھڑے تھے، ہم لوگ ہلکی سی بارش ہو تو جلسہ ریلی سب چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، پلٹن میدان میں دو گھنٹے سے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی اور ایک بندہ اپنی جگہ سے ہل کے نہیں دے رہا تھا۔ عوام میں کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات بھرے ہوئے تھے، کوئی اپنی جگہ سے ہلنے کے لیے تیار نہ تھا، سیاسی کارکن الرٹ تھے۔ ہم مغربی پاکستان والے مہمان خصوصی کے طور پر اسٹیج پر بیٹھے بھیگ رہے تھے۔ شنگرام شنگرام چولبے کی آواز سے پلٹن میدان گونج رہا تھا۔ یعنی جدوجہد، جدوجہد جاری رہے گی۔
آج 1970 اور 1970 کے سیاسی کارکن یاد آرہے ہیں تو احساس ہو رہا ہے کہ پلٹن میدان کے سیاسی کارکن دو گھنٹے موسلا دھار بارش میں کس طرح جم کر کھڑے تھے۔ کیا پلٹن میدان کے کارکن کراچی کے کسی میدان میں نظر آسکتے ہیں؟