Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Janibdari

Janibdari

پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے تہترسال ہو رہے ہیں جب ہم مہاجرت کا قرنطینہ کاٹ کر باہر نکلے تھے تو ہمارے سامنے اس وقت بھی ٹرانسپورٹ ہی کا مسئلہ اہم مسئلوں میں شامل تھا۔ آج بھی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ سات دہائیوں میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن 1999 سے ملتی جلتی حالت آج بھی موجود ہے۔

نوجوان صحافی اور اسٹاف وغیرہ بسوں میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنے لیے جگہ بنا لیتے تھے۔ آج بھی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اتنا ہی گمبھیر ہے سب سے پہلے بس ٹرانسپورٹ کو لے لیجیے جس کا قحط ہے، چونکہ ہر ملک میں عوام دوست ٹرانسپورٹ ہوتی ہے لہٰذا وہاں ایک سسٹم کے مطابق شیڈول کے مطابق بسیں چلائی جاتی ہیں اس لیے عوام کو ان مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا جو آج عوام کو درپیش ہیں۔

پی پی عوام کے مسائل حل کرنے میں کوشاں رہتی ہے لیکن بے نظیر کے بعد پی پی عوام سے کٹ گئی ہے اور ملک بھر میں مہنگائی سمیت ٹرانسپورٹ کے مسئلے انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ اس لیے اب تک حل نہ ہو سکا کہ کرپشن اس کے سامنے دیوارکی طرح کھڑی ہوئی ہے۔ حکومت عوام کے لیے کوئی خریداری کرے، اس میں کرپشن کی وجہ سے یہ مسئلہ تو حل نہیں ہوسکتا البتہ مسائل میں اضافہ ضرور ہوتا رہتا ہے۔ ٹریفک پولیس اب اتنی ایکسپرٹ اور منصوبہ بند ہوگئی ہے کہ ٹرانسپورٹ کے مسائل حل تو نہیں ہوتے البتہ ٹریفک پولیس کی آمدنی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

دنیا میں مسائل کی پیداوارکو روکنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری کام یہ کیا جاتا ہے کہ شہروں کی آبادی کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے لیکن کراچی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کراچی اب تک اربنائزیشن ہی کے دور سے گزر رہا ہے۔ دیہی علاقوں سے روزگارکے متلاشی عوام کی کراچی آمد کا سلسلہ ہرگزرے کل میں ہوا۔

کراچی ایک ترقی یافتہ صنعتی شہر ہے جہاں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں۔ ان میں اضافہ تو ہوتا رہتا ہے کمی نہیں ہوتی۔ کراچی کو جتنے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اس کا پچاس فیصد بھی کراچی کو نہیں ملتا اس کی دو وجوہات نظر آتی ہیں ایک یہ کہ کراچی کو اتنے فنڈز نہیں ملتے جتنے ملنے چاہئیں، کہا جاتا ہے کہ کراچی میں اردو بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے فنڈ متنازعہ رہتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ انتہائی افسوس ناک ہے اس حوالے سے دوسری بات یہ بتائی جاتی ہے کہ کراچی کو جتنے فنڈ ملتے ہیں وہ خرچ نہیں کیے جاتے۔

ماضی میں کوئی حکومت بلدیاتی کاموں کے حوالے سے کبھی سنجیدہ نہیں رہی۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں بلدیاتی نظام کے نہ ہونے سے بلدیہ کا بھاری فنڈ ایم پی ایز اور ایم این ایزکو دیا جاتا ہے جو اس فنڈ کا غلط استعمال کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کراچی میں بلدیاتی نظام کے نہ ہونے کا اصل مقصد یہ تھا کہ بلدیہ کے بھاری فنڈ صوبائی حکومتیں کھا جاتی تھیں جس کا نتیجہ کراچی کی پسماندگی کی شکل میں ہمیشہ عوام کا مقدر بنا رہا اور صوبائی اور قومی منتخب نمایندے بلدیہ کے فنڈ کھاتے رہے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ کراچی کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں کی جا رہی ہے؟

کراچی میں سندھ کے دیہی علاقوں کے عوام ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے عوام تشریف لاتے رہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ وسائل میں اضافے کے بغیر آبادیوں میں اضافہ ہوتا ہے تو وہی صورتحال پیدا ہوتی ہے جوکراچی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کو مہاجروں کی جماعت کہا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ایم کیو ایم پر اردو بولنے والوں کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں نہ دوسرے صوبوں سے کراچی آنے والوں پر کوئی پابندی ہے نہ اب تک کوئی ایسی شکایت پیدا ہوئی ہے۔ ہمارے طبقاتی نظام میں غریب عوام جن مشکلات کا شکار ہیں اس میں کسی قسم کی تعصبانہ تقسیم ہے نہ ہونی چاہیے۔

جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے کراچی کو بوجوہ نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اس قسم کے رویے روا رکھے جاتے ہیں تو زبان اور قومیت کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ انسانوں کے درمیان اگر کوئی حقیقی تقسیم ہوتی ہے تو وہ ہے طبقاتی یعنی غریب اور امیرکی، چونکہ اس تقسیم سے امیر طبقات اپنی لوٹ مارکی امارت کی وجہ غریبوں کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اور خطرہ ہوتا ہے کہ امیروں کی لوٹ مار سے متاثر ہونے والوں میں ہر قومیت ہر فرقہ اور ہر زبان بولنے والے لوگ شامل ہیں۔ لہٰذا ایلیٹ کا یہ خوف فطری ہی کہلا سکتا ہے کہ غریب طبقات تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مطابق متحد ہوکر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے کی طرف مائل نہ ہو جائیں۔ اسی خوف کی وجہ سے مختلف حوالوں سے تفریق پیدا کی جا رہی ہے۔

یہ صورتحال صرف پاکستان کی نہیں ہے بلکہ جہاں جہاں سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام موجود ہے۔ طبقاتی نفرت کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، لیکن طبقاتی نفرت آسمان سے نہیں آئی بلکہ زمین پر رہنے والوں کے رویے سے آئی ہے اس بیماری کا فطری علاج تو یہ ہے کہ ملک سے طبقاتی نظام کا خاتمہ کردیا جائے لیکن ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں اس نظام کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اس کا ایک دوسرا نامکمل حل یہ ہے کہ طبقاتی نظام کی زیادتیوں کو کم کیا جائے اور غریب طبقات کو غربت و افلاس سے نکالا جائے۔

ہم نے بات شروع کی تھی کراچی کے بلدیاتی نظام سے ہونے والی ناانصافیوں سے جن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کا بہت آسان حل ہے بشرطیکہ طبقاتی تضادات کو کسی ایک کمیونٹی تک محدود نہ کیا جائے۔ اس حوالے سے دوسرا آسان طریقہ یہ ہے کہ غریب طبقات کے درمیان جانبداری نہ برتی جائے۔

مثال کے طور پر ہر صوبے میں اسی صوبے کے عوام پر مشتمل پولیس موجود ہے لیکن صوبہ سندھ میں چاروں صوبوں کی پولیس موجود ہونے سے عوام کو روزگار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو جماعتیں لسانی سیاست کرتی ہیں ان کی یہ ذمے داری ہے کہ کسی صوبے کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے دیں۔ انسانوں کے درمیان نفرتیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کسی صوبے کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے۔ کیا ہمارے حکمران اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ سندھ سے ناانصافیاں کی جا رہی ہیں خاص طور پر بلدیاتی فنڈزکی ادائیگی کے حوالے سے۔