Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jo Mil Gaya Le Lo?

Jo Mil Gaya Le Lo?

پی ٹی آئی کی حکومت نے کرپٹ اشرافیہ کے خلاف احتساب کا جو عمل شروع کیا ہے، اس کی وجہ اشرافیہ کے محلوں میں ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔

اشرافیہ کے دیوتا اس احتساب کو رکوانے کے لیے اندر اور باہر سے پورا زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح احتساب کو رکوا لیں لیکن ان کی ہر کوشش اس لیے ناکام ہو رہی ہے کہ کرپشن کے حوالے سے ہماری اشرافیہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر اس قدر بد نام ہوچکی ہے کہ ماضی کے جگری دوست بھی اب اشرافیہ کی حمایت سے گریزاں ہیں۔

ان سابق مہربانوں کی حمایت کے حصول میں ناکامی کے بعد ملک میں افراتفری مچانے کے لیے سر پیرکا زور لگا لیا گیا، لیکن اس مہم میں بھی ناکامی کے بعد اشرافیہ کوئی ایسے جنتر منتر کی تلاش میں ہے کہ حکومت اور احتساب کا بیڑا غرق ہوجائے اور اشرافیہ زندان سے باہر نکل آئے۔

مسئلہ یہ ہے کہ 72 سال سے جس اشرافیہ نے کھلا کھایا ہے، اب اسے سخت مشکل کا سامنا ہے کیونکہ اب کھلا کھانے کے مواقعے ختم ہوگئے ہیں لیکن حالات کے مشاہدے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اشرافیہ احتساب کی پکڑ سے رسیاں ڈھیلی کرانے میں کامیاب ہورہی ہے، اگر خدانخواستہ اشرافیہ رسیاں تڑانے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس ملک کا جو حشر ہوگا، اس کے تصور ہی سے وحشت ہوتی ہے۔ ہمارے قانون میں اشرافیہ نے ایسی لچک رکھی ہے کہ مجرم کسی بھی وقت قیمت چکا کر آزاد ہوسکتا ہے اس لچک کا نام پلی بارگین رکھا گیا ہے جس سے ماضی میں بھی اشرافیہ نے خوب فائدہ اٹھایا حال میں بھی خوب فائدے اٹھا رہی ہے۔

احتساب اشرافیہ کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اگر احتساب کامیابی سے جاری رہتا ہے تو اشرافیہ کے پر کٹ جاتے ہیں اگر احتساب ناکام ہوتا ہے تو اشرافیہ کو ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔ جب سے دو پارٹی سسٹم چلتا رہا ہر طرف سے محفوظ لوٹ مار کا سلسلہ کامیابی سے چلتا رہا۔ درمیان میں سے عمران خان کی انٹری نے عارضی طور پر ہی سہی اشرافیہ کو بری طرح ڈسٹرب کردیا ہے۔ اگر احتساب ناکام ہوتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہوگا۔ احتساب کا مطلب اشرافیہ سے لوٹے ہوئے کھربوں روپوں کی برآمدگی ہے اور یہ کھربوں روپے برآمد ہوتے ہیں تو یہ بھاری رقم مہنگائی پر قابو پانے میں لگائی جاسکتی ہے اور عوام مہنگائی کے عذاب سے کسی حد تک نجات پا سکتے ہیں لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ احتساب کی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔

جب ملک کا سربراہ ہی یہ کہہ دے کہ اشرافیہ بہت کنجوس ہے وہ لوٹا ہوا سرمایہ واپس نہیں کرے گی، جو کچھ مل جائے وہ لے لیا جانا چاہیے تو پھر یہ احتساب تو نہیں ہوا۔ یہ ثواب کا کام ہو جاتا ہے۔ اشرافیہ نے پچھلے دس سالوں میں بیرونی ملکوں خاص طور پر دوست ملکوں کے حکمرانوں سے ایسے برادرانہ تعلقات استوار کرلیے ہیں کہ اس برے وقت میں وہ ہماری اشرافیہ کی ہر طرح مدد کریں گے اور ایسا لگتا ہے کہ بیرونی ملکوں کے سربراہ خاموشی سے ہماری اشرافیہ کی مدد کر رہے ہیں۔

کرپشن ایک متعدی مرض ہے اور یہ مرض سرمایہ دارانہ معیشت میں تیزی سے پھیلتا ہے۔ چین ہمارا دوست اور پڑوسی ملک ہے چین میں بھی کرپشن وبا کی طرح پھیل گیا تھا۔ چینی حکمرانوں نے اس وبا پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن چین کی بے لگام اشرافیہ قابو میں نہ آئی۔ چین کے باشعور اور حالات کو سمجھنے والے محتسبوں نے طے کیا کہ کرپشن کو ہمدردانہ رویوں سے روکا نہیں جاسکتا نہ سیدھی انگلیوں سے گھی نکل سکتا ہے۔

سو انھوں نے قانون کا ڈنڈا اٹھایا اور اشرافیہ کے چار سو ملزمان کو سزائے موت دے دی۔ چار سوکرپٹ اشرافیائی کارندوں کو جب پھانسیاں لگائی گئیں تو اشرافیہ الرٹ ہوگئی اور یوں چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اشرافیہ کے گلے میں ایسی رسی ڈالی کہ اشرافیہ کا سارا زور ٹوٹ گیا۔ ایک نہ دو اشرافیہ کے 400 کاریگروں کے گلوں میں رسی آنے سے اشرافیہ کا زور ٹوٹ گیا۔ ویسے جب تک دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا بول بالا ہے، کرپشن کا جڑ سے نکلنا مشکل ہے لیکن 400 گردنوں میں جب پھندا لگ جائے تو اشرافیہ کا کمزور ہونا یقینی ہوجاتا ہے سو چین میں یہی ہوا۔ اب چین نسبتاً زیادہ یکسوئی سے ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے۔ آج چین ایک بہت بڑی معاشی طاقت کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔

پسماندہ ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔ ہر روز لاکھوں انسان بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں۔ دنیا کے لاکھوں انسان بیماری اور دواؤں کی عدم دستیابی کی وجہ جان سے جا رہے ہیں۔ بھارت کا شمار بھی دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ بھارت میں بھی 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے اور اس کی ذمے دار اشرافیہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مڈل کلاس کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے لیکن وہ سوائے نمائشی احتساب کے اور کچھ نہیں کر پا رہی ہے۔ کیونکہ زیر احتساب اشرافیہ اب بھی مضبوط ہے اور اندرونی اور بیرونی پریشر کے ذریعے لنگڑے لولے احتساب کو بھی ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اور حالات بتا رہے ہیں کہ شاید احتساب کی گاڑی ٹھپ ہوجائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں احتساب کی مہم مچھر مار مہم کی طرح ناکام ہوجائے گی۔ آج جو محترمین "جو کچھ مل جائے لے لو" کہہ رہے ہیں انھیں اندازہ نہیں کہ اگر نام نہاد احتساب اس بار بھی ناکام ہوجائے تو اشرافیہ اس قدر مضبوط ہوجائے گی کہ بڑے سے بڑا احتساب بھی اشرافیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا۔ حکومت کے مہربان اگر اس نازک موقع پر گھٹنے ٹکا دے تو آیندہ کوئی احتساب کا نام بھی نہیں لے گا۔