نئے منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی منتخب حکومت کے پہلے دن کا آغاز مثبت فیصلوں سے کیا۔ ٹرمپ نے مسلم ممالک پرجوسفری پابندیاں عائدکی تھیں، جوبائیڈن نے اقتدار کے پہلے دن ہی ان سفری پابندیوں کو ختم کردیا، پیرس ماحولیاتی اور ڈبلیو ایچ او میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کیا۔
میکسیکو کی سرحد پر دیواروں کی تعمیر بندکرا دی، مارکیٹنگ ریجن میں تیل اورگیس دریافت کرنے کی لیز منسوخ کردیں اس طرح اپنے دور حکومت کے پہلے ہی دن اپنے ملک اور عالمی امور کے حوالے سے مثبت کام کا آغاز کیا ہے، اسلامی ملکوں پر پابندیاں ختم ہونے سے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں جو اینٹی عوام فیصلے کیے گئے تھے جوبائیڈن نے انھیں منسوخ کرنا شروع کردیا ہے، جو دنیا کے عوام کے لیے حوصلہ افزا بات ہے۔
بائیڈن نے جن سترہ حکم ناموں پر دستخط کیے ہیں وہ قومی اور بین الاقوامی امور میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ نے جوکارنامے انجام دیے ان میں ایران پر پابندیاں شامل ہیں لیکن بائیڈن نے ان غیر ضروری پابندیوں کو ختم نہیں کیا۔ واضح رہے کہ امریکی حکومتیں ایران پر پابندیاں لگانے کے حوالے سے یکساں طرز عمل کا مظاہرہ کرتی آ رہی ہیں جس کی وجہ سے یہ علاقہ مستقل تناؤ کا شکار ہے۔ ٹرمپ کی ایران دشمنی کی وجہ اسرائیل کی فرضی سالمیت کا تصور ہے۔ اسرائیل اب اس قدر طاقتور ہو گیا ہے کہ وہ پورے خطے پر حاوی ہو چکا ہے، صرف ایران ایسا ملک ہے جو علاقے میں اسرائیل کی ظلم پر مبنی داداگیری کو نہیں مانتا۔ ایران کی اس حکم عدولی کو اسرائیل کا سرپرست اور محافظ بغاوت سمجھتا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر اپنے دور حکومت کے پہلے دن سے مثبت پالیسیوں پر عملدرآمد کی تیاری کرکے دنیا کے عوام میں نیک تمناؤں کی خواہش پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت عمل ہے بائیڈن اس سمت میں اگر پیش رفت کرتے ہیں تو دنیا کے مستقبل کی بہتری کے علاوہ خود امریکا کی نیک نامی کو سہارا مل سکتا ہے۔
اسرائیل ایک خود غرض ملک ہے وہ صرف اپنے قومی مفادات کو اولیت دیتا ہے ساری دنیا کے عوام کے مفادات سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ خاص طور پر اسلامی ملکوں سے اس کی دشمنی چھپائی نہیں جاسکتی لیکن عالمی دباؤ کے علاوہ اس کے اپنے دباؤ کا تقاضا ہے کہ وہ مسلم دنیا کی غیر عاقلانہ دشمنی اور علاقے میں اپنی دہائیوں پر مشتمل تنہائی سے باہر نکلے اور امن کی حامی دنیا کا حصہ بنے۔ اس حوالے سے امید کی ایک کرن یہ دکھائی دیتی ہے کہ اب اس نے عرب ملکوں سے سفارتی تعلقات کا آغاز کیا ہے۔
صدیوں سے دنیا مختلف حوالوں خاص طور پر مذہب کے حوالے سے جس متحارب راستے پر چل پڑی ہے، اس کی وجہ سے دنیا کے عوام میں محبت اور بھائی چارے کی جگہ نفرت اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے جو دنیا کے مستقبل کے لیے ایک خطرہ اور مایوسی کی علامت ہے۔
دنیا کے مسلم ملکوں کی آبادی کئی ملکوں میں بٹی ہوئی ہے اتنی بڑی آبادی سے عداوت ایک بڑا خطرہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے عوام کی معاشی خوشحالی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اس میں کمی کے بجائے اضافہ امریکا اور اسرائیل کی سیاست سے ہو رہا ہے۔ یہ مسئلے اس لیے پیدا ہو رہے ہیں کہ ہر ملک اپنے قومی مفاد کو اولیت دے رہا ہے بلاشبہ قوموں اور ملکوں میں بٹی ہوئی اس دنیا میں یہ تنگ نظری نہ غیر فطری ہے نہ امید کے برخلاف۔ دنیا میں اب پیغمبری کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے جب تک پیغمبری کا سلسلہ جاری تھا دنیا اور دنیا کے عوام کی بھلائی پیغمبروں کی ذمے داری تھی اب جب کہ پیغمبری متروک ہوگئی ہے یہ ذمے داری خدا کے برگزیدہ اور عوام دوست افراد کی ذمے داری بن گئی ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کی ذمے داری بن گئی ہے جو خدا کے بندوں سے محبت کرتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذکورہ افراد اپنی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں؟ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں انسان پرست یعنی انسانوں کی بھلائی چاہنے والے مفکر، ادیب، دانشور اور فنکار موجود ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی "بندہ نوازی" کو سانپ سونگھ گیا ہے وہ اب صرف اپنے لیے زندہ ہیں دنیا کے 8 ارب انسانوں سے ان کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔
ایسا کیوں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے لیکن اس کا مختصر ترین جواب ہے سرمایہ دارانہ نظام جو انسان کو جانور بنا دیتا ہے۔ دنیا میں بے شمار صالحین آئے اور انسانوں کی بھلائی کے لیے کوشش کرتے رہے ان عظیم انسانوں کو عقل سے معذور انسانوں نے انسانوں کو ایک وحدت میں پرونے کا وہ عظیم کام نہیں کرنے دیا جس کے کرنے سے دنیا حقیقی معنوں میں جنت بن سکتی ہے۔ بلکہ ہوا یہ کہ یہ بے رحم انسان ان مہان لوگوں کو صلیب پر چڑھاتا رہا۔ آج پوری دنیا فکری دیوالیہ پن کی وجہ سے صلیب پر چڑھی ہوئی ہے کوئی انسان اور خدا کا بندہ بننے کے حوالے سے سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ اس بڑے کام کے لیے عقل و دانش کے علاوہ بھاری وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
بات چلی تھی ٹرمپ کی شکست اور جوبائیڈن کی فتح اور شکست سے اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ امریکا طاقت کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہے لیکن انسانیت کے حوالے سے سب سے گھٹیا ملک ہے بائیڈن بھی ایک امریکی ہے اور اس میں امریکا پرستی کا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن اس کے چند ابتدائی کاموں سے امید پیدا ہو رہی ہے کہ یہ شخص روٹین کے کاموں کے علاوہ بھی کچھ کرسکتا ہے۔
بائیڈن یہ کرسکتا ہے کہ قومی سطح پر سوچنے والوں کے بجائے عالمی سطح پر سوچنے والوں کو آگے لائے اور ان کے سامنے صرف ایک سوال رکھے کہ مختلف حوالوں سے ہزاروں خانوں میں بٹی ہوئی دنیا کو ایک بڑے خانے یعنی انسانیت کے خانے میں کس طرح لایا جاسکتا ہے ہم جیسے خوش فہم ایسی خواہش کرتے ہیں اور خواہشوں سے ہی کشادہ راہیں نکلتی ہیں۔