ہندوستان نے کشمیرکی خصوصیت حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کا ایک حصہ بنا دیا۔ کشمیرکو ایک خصوصی حیثیت دینے کے لیے جو آرٹیکل لائے گئے تھے، یعنی 35A اور 70 اسے واپس لے لیا گیا اس طرح اب کشمیر بھارت کا ایک ایسا حصہ بن گیا جیسے اندھرا، کرناٹک وغیرہ ہیں۔
اب جو اصل تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ اب بھارت کا کوئی بھی شہری کشمیر میں جائیداد خرید سکتا ہے، کشمیر میں سرکاری ملازمت کر سکتا ہے، پچھلے 71 سال سے کسی ہندوستانی شہری کے کشمیر میں جائیداد خریدنے اور سرکاری ملازمت اختیار کرنے پر پابندی تھی۔ مودی حکومت نے اب یہ پابندی اٹھا لی ہے بظاہر یہ پابندیاں معمولی سی لگتی ہیں لیکن ذرا گہرائی سے اس کا جائزہ لیں تو اس میں بڑے معنی نظر آتے ہیں۔
اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہو گا کہ آہستہ آہستہ کشمیر میں مسلم اکثریت ختم ہو سکتی ہے بلکہ ایک طویل عرصے میں مسلم اکثریت مسلم اقلیت میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ دوسری پابندی کشمیر میں سرکاری ملازمتوں کا حصول تھا، آئین کے تحت کوئی بھارتی کشمیر میں سرکاری ملازمت حاصل نہیں کر سکتا تھا لیکن آئین میں تبدیلی کے بعد اب بھارت کے شہری کشمیر میں ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔
ان دونوں شقوں کے عائد ہونے سے اگرچہ کچھ موضوعی تبدیلی آ گئی ہے لیکن کشمیریوں کا اصل مسئلہ معاشی بد حالی کا خاتمہ ہے جو بڑھے گی کم نہیں ہو گی، کیونکہ جو آزادیاں اب ہندوستانی شہریوں کو ملی ہیں، اس کا لازمی نتیجہ بھارتی عوام کی کشمیر میں یلغارکی شکل میں نکلے گا۔ جو کشمیریوں میں مزید غربت پھیلائے گا اور اس کے برعکس کچھ خوشحالی کے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ 71 سال تک کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دے کر کیوں رکھا گیا اور اب اس خصوصی حیثیت کے خاتمے کی وجہ کیا ہے؟
کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی اس کے علاوہ کشمیر ایک متنازعہ ریاست اس لیے تھی کہ اقوام متحدہ میں یہ علاقہ متنازعہ تھا۔ اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔ اس نئی صورتحال میں کشمیریوں سے ان کا یہ اختیار چھن گیا ہے، اب کشمیریوں کی تقدیر کا فیصلہ مرکزی حکومت کا اختیار ہو گا اور یہ تبدیلی آزاد قوموں کے اختیار میں کھلی مداخلت کے مترادف ہو گی۔
یہ سب مغربی جمہوریت کے کارنامے ہیں جو قوموں کے درمیان مغائرت پیدا کرتے ہیں، 1947 کی تقسیم سے لے کر حالیہ تبدیلیوں تک اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کو مختلف حوالوں سے تقسیم کر دیا گیا ہے اور تقسیم کے نتائج عوامی مفاد کے ہمیشہ خلاف رہے ہیں۔ ہندو اور مسلمان غیر منقسم ہندوستان میں آزادی سے پہلے غیر منقسم تھے آزادی نے انھیں تقسیم کر دیا اور اس تقسیم کے نتیجے میں وسائل ختم ہو گئے اور سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ دونوں قوموں کے درمیان ایسی نفرت پیدا ہو گئی کہ ایک اندازے کے مطابق 22 لاکھ انسان اس مذہبی منافرت کی نذر ہو گئے۔ دنیا دانشوروں، مفکروں سے بھری پڑی ہے بھارت اور پاکستان میں بھی دانشور، مفکر، ادیب، شاعر موجود ہوں گے ان طبقات کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ جہل سے پاک اور انسانی مساوات کا درس دیتے ہیں۔ مسلمان 1947ہی میں ایک ملک کے مالک نہیں بنے بلکہ ایک ہزار سال تک وہ پورے برصغیر کے مالک رہے۔
ان میں اس دور میں کوئی نفرت کوئی کدورت نہیں تھی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شخصی اور خاندانی حکمرانوں کو جہل کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس جہل کے دور میں مذہبی تقسیم کے بغیر مذہبی رواداری کے ساتھ بھارت کے ہندو مسلمان مل جل کر رہے اور شخصی حکمرانی کے خاتمے کے بعد جیسے ہی جمہوری دور آیا انسانوں کے درمیان عدم اعتمادی، نفرت ساتھ لایا اور ایک ہزار سال تک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے۔ یہی دشمنی اور مذہبی منافرت آج کشمیرکی سیاسی اور جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کا سبب بن گئی۔ کیا شخصی حکومتیں بری تھیں۔ شخصی حکومتوں کو برا اور جمہوریت کو پھل دار ثابت کرنے والے ہندوستان کے ایک ہزار سالہ دور اور آزادی کے 71 سال کا موازنہ کریں تو انھیں جمہوریت اور آمریت کا فرق واضح نظر آئے گا۔
بات جمہوریت اور آمریت کی نہیں بلکہ انسانی فکر اور وسیع القلبی کی ہے۔ 1947سے پہلے بھی وہی انسان تھے 1947کے بعد بھی وہی انسان ہیں۔ صرف انداز فکرکی تبدیلی نے یہ سب کچھ بدل ڈالا۔ ایک ہزار سال کے بعد ایک بار پھر 72 سال تک کسی نہ کسی سطح پر مل جل کر رہنے والے آج ایک بار پھر الگ ہو گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت نے انسانوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا کام کیوں کیا؟
آمریت کے ہزار سال اگر اتنے برے نہیں تھے تو پھر جمہوریت کے 72 سال کیوں اتنے برے ثابت ہو رہے ہیں؟ کیا یہ نظاموں کی خرابی ہے یا انسانی فکر کی خرابی؟ آمریت یا صرف جمہوریت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ طاقت کا مسئلہ ہے اگر سچ پوچھیں تو جمہوریت وغیرہ سب ضمنی باتیں ہیں اصل چیز ہے طاقت، خواہ وہ عوام کی شکل میں ہو یا آمریت کی شکل میں۔
اگر بھارت پاکستان سے کمزور ہوتا تو کشمیر اول تو تقسیم نہ ہوتا اگر تقسیم ہوتا بھی تو آج بھارت نے کشمیر کے ساتھ جو کیا وہ نہ کیا جاتا۔
قارئین کرام! طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ہمارے کالم کے موضوعات میں تسلسل نہ رہ سکا جس کی پیشگی معذرت۔ میری انتہائی کوشش اور خواہش ہے کہ کالم وقت پر لکھے جائیں اور وقت پر شایع ہوں لیکن بعض عوامل انسان کے بس سے باہر ہوتے ہیں، مجبوری ہے۔