مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے 35A اور 370 دفعات کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر اپنی آزادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ اب فطری طور پرکشمیری تحریک آزادی کی طرف پیش رفت کریں گے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان نے جو اقدامات کیے ہیں، ان میں سفارتی تعلقات کا خاتمہ، تجارتی تعلقات کا خاتمہ، سمیت کئی ایسے قدم اٹھائے ہیں جن سے دونوں ملکوں کے تعلقات کی سنگینی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ غالباً 1971ء کے بعد پاکستان کی طرف سے یہ سخت ترین اقدامات ہیں۔ حکومت پاکستان نے 14 اگست کے یوم آزادی کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے دن کے طور پر منایا اور ہندوستان کے یوم آزادی 15 اگست کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ ان اقدامات سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان 72 سال سے تعلقات میں کشیدگی، تین بڑی جنگوں کے بعد اب سفارتی اور تجارتی تعلقات کے خاتمے تک آ پہنچے ہیں اور خدشہ ہے کہ اگر دونوں ملک خاص طور پر ہندوستان صبر و تحمل اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ نہ کرے اور روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے تو پھر کشیدگی اس مقام تک پہنچ جائے گی جہاں سے جنگ سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔ یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ بھارت ابتدا ہی سے جارحیت پرکاربند رہا ہے۔ کوئی معقول بات کی ہے نہ آیندہ کوئی معقول اور ہوش مندانہ بات کرتا نظر آ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو بد قسمتی سے برصغیر کے عوام ہی کے لیے نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کو مزید پسماندگی کی لپیٹ میں لے لے گا، دوسرے ملکوں پر قبضے کی سائیکی بہت پرانی روایت ہے، دنیا سر سے لے کر پیر تک بدل گئی ہے لیکن یہ سائیکی ابھی تک زندہ ہے۔
ہندوستان اور پاکستان دو پسماندہ ترین ملک ہیں اور اس پسماندگی کے خاتمے کے لیے شرط اول امن اور تعلقات میں بہتری ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت امن اور رواداری کی پالیسی پر چلنے کے بجائے تصادم اور کشیدگی کی پالیسی پر چلتا آ رہا ہے، جس کا نتیجہ تین جنگوں کی شکل میں خطے کے غریب ممالک بھگت چکے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ بدقسمتی سے دونوں ملک ایک اور جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہندوستان کا ریکارڈ بہت خراب ہے، ہندوستان نے کبھی اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی پابندی نہیں کی ہمیشہ جارحانہ پالیسیوں پر عملدرآمد کرتا رہا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ مایوس کن اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ سیکولر کہلانے کا دعوی کرنے والا ملک بھارت آج مذہبی انتہا پسندی کی راہ پر چل پڑا ہے اور یہ ٹریجڈی پورے خطے کے عوام کے لیے باعث مایوسی بن رہی ہے۔
آج کل دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا ہے۔ انسان جو ہزاروں سال سے غیر عقلی روایات سے چمٹا ہوا ہے، اب آہستہ آہستہ ماضی سے جان چھڑا کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے حقیقت پسندانہ دور میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ کیا ہندوتوا اسے ایک بار پھر اندھیروں میں نہیں دھکیل دے گا؟ بھارت کی ابتدائی پہچان اور شناخت ایک ترقی پسند سیکولر اسٹیٹ کی تھی اور اسی شناخت کی وجہ سے ساری دنیا میں بھارت کی عزت اور پذیرائی کی جاتی تھی، آج وہ بھارت ہندوتوا کے ذریعے اپنی شناخت کرانے جا رہا ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے۔
برصغیرکے عوام سیکڑوں سال سے ذہنی اور معاشی پسماندگی کے شکار ہیں۔ آزادی کے بعد جب برصغیر کو نو آبادیاتی نظام سے چھٹکارا ملا تو یہ امید پیدا ہوئی کہ شاید اب یہ خطہ خاص طور پر برصغیر کے طور پر پہچانا جانے والا، جہل سے چھٹکارا پا کر جدید علوم کی روشنی سے منور ہو گا لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ عقل کے دشمنوں نے برصغیر کو ایک بار پھر اندھیروں میں دھکیل دیا ہے اور برصغیر کے ایک ارب کے لگ بھگ غریب اور معاشی پسماندگی کے شکار عوام مذہبی نفرتوں کے بھنور میں ڈوبتے چلے جائیں گے۔
72 سال تک پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے برصغیرکے بہتر مستقبل کی امید میں وقت گزار رہا تھا۔ کشمیری عوام پاکستان سے ممکنہ ادغام کی امید میں زندہ تھے، اب جب انڈیا نے ایک دم کشمیر کو دستوری طور پر بھارت میں شامل کر لیا ہے تو ایک کروڑ کے لگ بھگ کشمیری عوام کا مشتعل ہونا ایک فطری امر ہے اور یہ سب اس طرح ہوا ہے کہ 72 سال سے دبی ہوئی نفرتیں خدا نخواستہ ایک خطرناک مذہبی جوش و ولولے کے ساتھ ابھر کر سامنے نہ آ جائیں۔ اس خطے کے وہ لوگ جو اس خطے کے بہتر مستقبل کی امید میں بیٹھے ہوئے تھے سخت مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔
پسماندہ ملکوں کے عوام میں مذہب ایک انتہائی نازک اور جذباتی مسئلہ ہے، اگر انھیں اس طرح مذہبی تصادم کی طرف دھکیل دیا جائے تو اس کے کتنے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بھارت میں سب لوگ مذہبی انتہا پسند ہی نہیں لبرلز کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ اہل علم اور اہل دانش کی ایک بھاری تعداد بھی بھارت میں رہتی ہے جو مودی کے ہندوتوا کے شیطانی چکر سے دور رہتی ہے، ضرورت ہے کہ یہ لبرل قوتیں بھارتی اپوزیشن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بی جے پی کی سازش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔