نہ یہ پہلی بارش ہے نہ بارش کے حوالے سے یہ پہلی خبریں ہیں۔ اس حوالے سے ایک تین کالمی خبر ہے، جس کی سرخی ہے "مون سون نے تباہی مچادی، لاہور ڈوب گیا" قیام پاکستان کے بعد نہ یہ پہلی برسات ہے، نہ اس حوالے سے لگنے والی سرخیاں پہلی سرخیاں ہیں۔
لاہور میں ہی نہیں پورے ملک میں بارش عام طور پر ریکارڈ توڑ ہوتی ہے، اس سال بھی لاہور کی بارش کا اندازہ اخباری سرخیوں سے ہوتا ہے۔ لاہور ڈوب گیا، بارش بلا کی ہوئی۔ بلا کی اس لیے کہ ملک کے کسی شہر میں پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں۔ لاہور ہر سال ہی ڈوبتا ابھرتا رہتا ہے، عوام بے یار و مددگار مرتے رہتے ہیں، سارے بارش کے مہینوں کا ہمارے پاس حساب نہیں لیکن صرف 16 جولائی کی مون سون میں 100 شہری زخمی ہوئے، ایک بچی کی ہلاکت کی بھی خبر ہے۔
قیام پاکستان کے بعد یہ پہلی بارش نہیں بلکہ 71ویں بارش ہے اور ہر سال بارش کے حوالے سے ایسی ہی نہیں اس سے زیادہ دل ہلانے ولی خبریں چھپتی رہتی ہیں "لہور" اور کرانچی ہر سال ڈوبے اور ابھرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دنیا میں اور بھی بے شمار ملک ہیں وہاں سیلاب کی صورت میں تو جانی نقصان مالی نقصان ہوتا ہے لیکن عام بارشوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ شہر ڈوب جاتے ہیں نہ مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے۔ جتنا ہمارے ملک کی تقدیر بنا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شہروں میں پانی کی نکاسی کا اہتمام کیوں نہیں ہے؟ یہ سوال نیا نہیں بلکہ یہ بھی 71 سال پرانا ہی ہے۔
لاہور ہمیں پسند ہے وہاں کراچی جیسی ہنگامہ خیزی ہے نہ دوڑ بھاگ کہ آدمی خود بھی دوڑتا بھاگتا نظر آئے۔ کراچی کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں، یہاں تو بارش ایک گھنٹہ لگاتار برسے تو کراچی ڈوب گیا کی سرخیاں اخباروں کی زینت بنتی ہیں۔ پسماندہ ملکوں کے شہر بھی بڑے بے شرم ہیں۔ ہر سال ڈوبتے ہیں لیکن ڈوبتے نہیں البتہ ان شہروں کے حکمرانوں کو ڈوب مرنا چاہیے کہ ان کے شہر تو ہر سال ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں لیکن مرتے نہیں، ان شہروں کے متعلقہ محکمے اور ان محکموں کے عہدیداروں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے کہ نہ یہ پہلی برسات ہے نہ لہور پہلی بار ڈوبا ہے۔ انسان جب کسی چیز خاص طور پر عوامی ضرورتوں کی چیزوں سے بے حیائی پر اتر آتا ہے تو وہ ڈوبتا ابھرتا رہتا ہے مرتا نہیں۔
"لہور" کی بات چلی ہے تو ہم ذرا ڈنڈی مارتے ہوئے دوسرے ٹریک پر آتے ہیں۔ لاہور ہمارا ماضی میں کئی بار آنا جانا ہوتا تھا جب سی آر اسلم، سید مطلبی فرید آبادی، میاں محمود، سردار شوکت وغیرہ زندہ تھے اور عام طور پر نیشنل عوامی پارٹی کی میٹنگیں لاہور میں سید مطلبی فرید آبادی کے مکان پر ہوتی تھیں۔ یہ غالباً 1966-1965 کی بات ہے بائیں بازو میں جان تھی، سیاست میں بائیں بازو کی آواز تھی جو سنی اور سمجھی جاتی تھی، مزدوروں اور کسانوں میں کام ہوتا تھا، کسان کانفرنسیں ہوتی تھیں غرض کہ بایاں بازو فعال تھا اور سیاست میں اس کی مضبوط آواز ہوتی تھی۔ اس زمانے میں حبیب جالب زیادہ مقبول نہ تھے، ان سے سر راہ ملاقات ہوجاتی تھی اسے ہم سرسری ہی کہہ سکتے ہیں۔
بات چل رہی تھی لاہور میں بارشوں سے تباہی کی۔ لاہور ہو یا کراچی یا کوئی اور شہر ہر سال مون سون میں سارے ہی شہروں کا یہی حال ہوتا ہے۔ اس کا جو حل تلاش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ بارشوں کا پامردی سے موسم ختم ہونے تک مقابلہ کیا جائے اور بارش کا موسم ختم ہوجائے تو اگلے مون سون کا خندہ پیشانی کے ساتھ انتظار کیا جائے۔ بارشوں میں ہنگامی صورت حال پیدا ہو تو حکام بالا کی چاپلوسی سے مستفید ہوا جائے اللہ اللہ خیر صلہ۔ ہمارے ملک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ مملکت خداداد ہے ہمارا حکمران طبقہ اس خداداد کے فلسفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہتا ہے بلکہ عوام کی دلجوئی کے لیے کہتا ہے کہ اگر ہمارا ملک مملکت خداداد ہے تو شہروں کو ڈبو دینے والی بارشوں کے ساتھ دوسری مصیبتیں بھی خداداد ہیں اور انسان خداداد "نعمتوں" کا احسان مند رہتا ہے ناشکری نہیں کرتا۔
حکام متعلقہ کا ہمیشہ یہ عذر رہا ہے کہ ہمیں ضرورت کے مطابق فنڈز نہیں ملتے، ہم کیا کریں۔ حکام کی اس بات میں دم ہے اگر فنڈز ہی نہیں ملے تو کام کیسے ہوں گے؟ عوام کا اس حوالے سے کہنا یہ ہے کہ جو فنڈز ملتے ہیں، وہ حکام باپ کی جاگیر سمجھ کر خرچ کر ڈالتے ہیں اور حساب کتاب اتنا کلین رکھتے ہیں کہ بڑے سے بڑا آڈیٹر بھی ایک پائی کی غلطی نہیں نکال سکتا۔ ملک کی برباد معیشت کو سہارا دینے کے لیے عمران حکومت شرح سود میں اضافے سمیت مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کیا ہے، اس طرح کے کسی اضافے کی کوئی حمایت نہیں کرسکتا لیکن یہ ضرور دیکھنا پڑتا ہے کہ اضافے کی وجہ کیا ہے؟ کہیں 24 ہزار ارب قرضہ تو اس شرح سود میں اضافے کی وجہ تو نہیں؟
ہماری ایک نامور اور مقبول عوامی جماعت کی ترجمان کہتی ہیں "عمران صاحب شرح سود میں اضافہ آپ کی نالائقی ہے۔ عوام جھوٹی اور چور حکومت سے حساب لے کر اسے گھر تک چھوڑ آئیں گے۔ " پہلے تو اس لائق ترجمان کا طرز تخاطب ملاحظہ فرمائیے۔ فرماتی ہیں چور حکومت! چور ڈاکو اور لٹیرے تو آج کل جیلوں میں ہیں۔ عمران خان اگر چور ہیں تو سب سے پہلے عمران خان کا احتساب ہونا چاہیے۔ کیونکہ وہ سلیکٹڈ وزیر اعظم ہیں الیکٹڈ نہیں ہیں۔ اگر الیکٹڈ وزیر اعظم ہوتے تو نہ 24 ہزار ارب کا قرض چھوڑ کر جاتے نہ بیرونی دوروں پر اربوں روپے لٹاتے "چوکیدار کو چور اور چور کو چوکیدار " جو چاہے آپ کا "حسن کرشمہ ساز" کرے۔
بات چلی تھی لاہور کے مون سون اور لاہورکے ڈوبنے کی۔ لاہور ہو یا کراچی یا حیدرآباد ہو یا سکھر یا لاڑکانہ، ہر جگہ ایسے ایماندار اور قوم کے خیر خواہ لوگ بیٹھے ہیں کہ لاہور ہو یا کراچی سب ڈوب جائیں گے تو بھی چور ڈاکو اور لٹیرے بچ جائیں گے۔ کیونکہ سیاں بھئے (امریکا) کوتوال تو ڈر کاہے کا۔ چوری اور سینہ زوری کی کہاوتیں تو ہم نے بہت سنی ہیں لیکن کھربوں کی چوری اور سینہ زوری کی زندہ مثالیں کسی کو دیکھنا ہوں تو پاکستان آنے کی زحمت کریں۔ یہاں وہ کچھ نظر آئے گا جو ساری دنیا میں نظر نہیں آتا۔ عمران خان کی حکومت میں لاہور ڈوب گیا اور "کسی جماعت" نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ یہ عمران خان کا جرم ہے یا نوٹس لینے والوں کا؟ خواص نوٹس لے رہے ہیں اب عوام کے نوٹس لینے کی باری ہے خواص 10 میل زمین کے اندر چھپیں تو بھی عوام مجرموں کو باہر نکال لیں گے۔