Thursday, 07 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Larai

Larai

جب میں دنیا کے سیٹ اپ پر غورکرتا ہوں تو میری نیند اڑ جاتی ہے۔ میرا ذہن بھاری اور منتشر ہو جاتا ہے اور میں اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔ یہ سب کیا ہے؟ کیوں ہے؟ انسان جس گھر میں، جس خاندان میں، جس زبان بولنے والوں میں پیدا ہوتا ہے۔

اسی کے اصولوں کو فالو کرتا ہے، اسی کے اخلاقی ضابطوں پر چلتا ہے۔ اگر وہ کسی غریب کے گھر پیدا ہوتا ہے تو عموماً ساری زندگی غربت کی چکی میں پستا رہتا ہے۔ ہزاروں میں ایک انسان ایسا ہوتا ہے، جسے آگے بڑھنے اور اپنی کلاس بدلنے کے مواقع حاصل ہو جاتے ہیں، اگر وہ اہل ہوتا ہے تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زندگی اپنی کلاس بدل لیتا ہے ورنہ پھر لاکھوں کروڑوں نادار اور غریب طبقات کی بھیڑ میں گم ہو جاتا ہے۔

اسے نہیں معلوم کہ وہ جس گھرانے، جس خاندان، جس قوم، جس ملک میں پیدا ہوا، کیا اس میں اس کی مرضی شامل ہے؟ مرضی شامل بھی کیسے ہو گی جب کہ وہ غوں غوں سے زیادہ نہ کچھ بول سکتا ہے نہ کچھ سمجھ سکتا ہے۔ اس سارے عمل میں اس کی اپنی مرضی کا کوئی دخل نہیں کیونکہ وہ اپنی مرضی کے اظہار کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔

انسان کے دو وصف بڑے اہم ہیں۔ ایک محبت دوسرا نفرت۔ وہ انھی دو غیر اختیاری اوصاف کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزار دیتا ہے اور اپنی زندگی کے دوران وہی کچھ کرتا ہے جو وہ سیکھتا ہے یا جو اسے سکھایا جاتا ہے اگر وہ اپنی مرضی سے کسی سے محبت کرتا ہے اپنی مرضی سے وہ کسی سے نفرت کرتا ہے تو وہ نہیں جانتا کہ وہ کسی سے نفرت کیوں کر رہا ہے، کسی سے محبت کیوں کر رہا ہے۔

یہ محبت اور نفرت اس کی گھٹی میں ڈال دی جاتی ہے جب وہ سوچنے، سمجھنے کے قابل ہوتا ہے تو وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کیا غلط ہے کیا صحیح۔ کیونکہ اس وقت تک دنیا غلط یا صحیح کے فیصلے کرچکی ہوتی ہے اور یہ فیصلے کرنے والے چند افراد یا چند گروہ ہوتے ہیں۔

یہ افراد یہ گروہ اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے لیے کچھ اصول کچھ ضابطے کچھ قانون بنا لیتے ہیں اور اسے ساری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہیں سے اختلافات کی شروعات ہوتی ہے جو بڑھ کر خون خرابے تک پہنچ جاتے ہیں، اسے کہیں فرقوں کے اختلافات کا نام دیا جاتا ہے، کہیں زبان کے اختلافات کا رنگ دیا جاتا ہے، کہیں قومیت کے اختلاف کا نام دیا جاتا ہے، اسے کہیں رنگ نسل کے اختلاف کا نام دیا جاتا ہے، اسے کہیں مذہبی اختلافات کا نام دیا جاتا ہے اور اس قسم کے اختلافات میں انسان کی عقل انسان کے شعورکا دخل ختم یا برائے نام رہ جاتا ہے۔

اس تقسیم کے علاوہ ایک اہم ترین تقسیم طبقاتی ہوتی ہے اگر کوئی بچہ کسی امیر گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی تربیت اس کی "کلاس" کے مطابق ہوتی ہے، اگر کوئی بچہ کسی مڈل کلاس میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی تربیت اس کی کلاس کے مطابق ہوتی ہے، اس کا رہن سہن اٹھنا بیٹھنا اس کی کلاس کے مطابق ہوتا ہے اگر کوئی بچہ کسی غریب گھرانے میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی زندگی کا تعین غریب گھرانے کے افراد کی طرح ہوتا ہے وہ صرف غریب ہوتا ہے اور ساری زندگی غربت میں گزار دیتا ہے، اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہوتا اس کی بے ارادہ پیدائش کا قصور ہوتا ہے۔

اس پورے غیر منصفانہ غیر فطری اصولوں اور قوانین کو بدلنے بلکہ یکسر بدلنے کی ضرورت ہے لیکن جس کلاس نے اصول یہ قوانین وضع کیے ہیں وہ طبقاتی ہیں اور پورے شعورکے ساتھ یہ اصول یہ قوانین وضع کیے ہیں جو دو فیصد طبقے اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہیں۔

یہ طبقہ بہت ذہین ہے اور اس طبقے کو نظریاتی گائیڈنس فراہم کرنے والے اس قدر ہوشیار ہیں کہ انھوں نے جو نظام متعارف کرایا ہے وہ اس قدر مربوط اور محفوظ ہے کہ اس کو توڑنا اس کی خلاف ورزی کرنا سوائے اس نظام سے بغاوت کے ممکن ہی نہیں۔ اشرافیہ اس قدر چالاک ہے کہ وہ ملکوں میں نظم و نسق بحال رکھنے امن و امان کے تحفظ کے لیے مختلف قسم کے مسلح دستے بنا رکھے ہیں جن کو امن و امان کی بحالی کا نام دیا گیا ہے لیکن یہ طاقتیں بنیادی طور پر ایلیٹ کی جان و مال کے تحفظ کا کردار ادا کرتے ہیں۔

اس ظالم اور انسان کش طبقے نے ایک اور انتہائی چالاکی کی ہے کہ کیونکہ غریب طبقات کی تعداد نوے فیصد کے لگ بھگ ہے اور اگر یہ متحد ہو جائیں اور اپنے حقوق سے واقف ہو جائیں تو اپنے حقوق غصب کرنے والوں اور غریبوں کی محنت کی کمائی پر عیش کرنے والوں کے ساتھ ایسا انصاف کریں گے کہ ان کی لوٹ مارکی صلاحیت ختم ہو جائے گی۔

سوال یہ ہے کہ ان طبقات کی ہر شعبہ زندگی پر مسلط اجارہ داروں کوکس طرح ختم کیا جائے۔ اس حوالے سے جمہوریت کے نام پر جو نظام قائم کیا گیا ہے وہ صرف اور صرف ایک دھوکا ہے جس میں ایلیٹ اقتدار کے لیے تو لڑتی ہے اور اربوں روپے خرچ کرتی ہے جس کا مظاہرہ ہم آج اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ لڑائی غریب طبقات کے حقوق کی لڑائی ہے؟ کیا اس لڑائی کا مقصد غریب طبقات کی غربت دور کرنا ہے، ایسا کچھ نہیں۔ اس لڑائی میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ عوام میں طبقاتی شعور پیدا کیا جائے۔